ہیں … وہی فاسق ہیں ۔‘‘ اللہ نے تحاکم إلی غیر ﷲ (اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف فیصلہ لے جانا) کو حرام قرار دیا ہے اور کسی مؤمن کو قطعاً یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے حکم پر اطمینان کا اظہار کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اسے دور کی گمراہی اور طاغوت و شیطان کی پیروی سے تعبیر کیا ہے۔ لہٰذا ارشاد فرمایا: ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا﴾ ( النساء :۶۰) ’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں لیکن چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ طاغوت سے کروائیں حالانکہ اُنہیں طاغوت کے ساتھ کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انہیں راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔‘‘ مزید برآں ، ربّ العالمین نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ کسی مؤمن مرد یا عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے معاملے میں اپنے لئے آزادی استعمال کرے جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی فیصلہ صادر کردیا ہو اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ایمان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو محض ظاہری صورت میں ہی مان لینا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ پوری خوشدلی اور آمادگی ٔ نفس کے ساتھ یہ کام انجام دے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء :۶۵) ’’تیرے پروردگار کی قسم! یہ لوگ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے تمام جھگڑوں میں تجھے حاکم نہ بنائیں او رپھر (صرف اتنا ہی نہیں بلکہ) ان کے دلوں کی حالت بھی ایسی ہوجائے کہ جو کچھ تم فیصلہ کردو، اس کے خلاف اپنے اندر کسی طرح کی کھٹک محسوس نہ کریں اور پوری طرح اس کو تسلیم کرلیں۔‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: |