واقعات کے یکسر خلاف ہے۔ بلوغت کا تعلق صرف عمر سے نہیں ہے بلکہ علامات سے زیادہ ہے جیسے احتلام، حیض وغیرہ۔ بالخصوص آج کل ہمارے ملک میں ۱۲ سال سے ۱۵ سال کے درمیان اکثر بچیاں بالغ ہوجاتی ہیں ۔ بنا بریں اس عمر کی بچیوں کو جنسی خواہش سے مبرا قرار دے کر سزا سے مستثنیٰ کرنا نہایت تعجب خیز امر ہے۔ دراصل اس قانون کے خالق چاہتے یہ ہیں کہ ہمارا معاشرہ جنسی بے راہ روی میں مغرب کے معاشروں سے کسی طرح پیچھے نہ رہے۔ مغرب میں اس عمر کی بچیاں نوجوان لڑکوں سے جنسی تلذذ حاصل کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتیں ، حتیٰ کہ ان کو حمل بھی ٹھہر جائے تو یہ بھی ان کے ہاں عیب نہیں ، نہ معاشرہ ہی ایسی نوعمر بچیوں کے بن بیاہی مائیں بننے پر کوئی حرف گیری یا انگشت نمائی کرتی ہے۔ مشرق کے ’مغربی‘ بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہاں بھی بن بیاہی ماؤں کا ایک طوفان آجائے جیسے مغرب میں یہ طوفان ساری حدوں کو توڑ چکا ہے۔ ٭ ایک اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ زیر بحث قانون کی ترمیم نمبر ۵ کی رُو سے اگر کوئی خاوند اپنی بیوی سے اُس وقت مباشرت کرے جب بیوی اس کام کے لئے آمادہ نہ ہو، تو یہ بھی زنا بالجبر کا ارتکاب ہوگا جس کی خود ساختہ سزا، سزاے موت یا سزاے قید جو کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ ۲۵ سال ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا، کیونکہ اس دفعہ کے الفاظ حسب ِذیل ہیں : ’’کسی مرد کو زنا بالجبر کا مرتکب کہا جائے گا جب وہ کسی عورت کے ساتھ مندرجہ ذیل پانچ حالات میں سے کسی صورت میں جماع کرے : 1. اس کی مرضی کے خلاف 2. اس کی رضا مندی کے بغیر…‘‘ کسی عورت کے عموم میں بیوی بھی شامل ہے، کیونکہ بیوی یا منکوحہ یا مملوکہ کا استثنا اس میں نہیں ہے ، لہٰذا اپنی بیوی کے ساتھ بھی اس کی رضا مندی کے بغیر جماع کرنا ایسا جرم ہوگا جس کی سزا ، سزاے موت ہوسکتی ہے۔ یہ کوئی خوامخواہ کی موشگافی، بذلہ سنجی یا لطیفہ گوئی نہیں ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اظہار اُس طبقے کی خواتین کی طرف سے ہوتا رہا ہے جس کی خوشنودی کے لئے امریکہ بہادر بھی ’ایڈ‘ |