Maktaba Wahhabi

70 - 111
دے رہا ہے اور اس کی خاطر یہ سارے پاپڑ بھی بیلے جارہے ہیں ۔ مغرب زدہ بیگمات کی اس خواہش کو بھی قانون کا جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ کوئی مشرقی حیا ووفا کی پیکر عورت چاہے ایسا نہ کرے، لیکن مغربی تہذیب کی والہ و شیدا عورت مستقبل قریب میں یورپ کی یہ روایت یہاں بھی دہرا سکتی ہے کہ خاوند کے زبردستی جماع کی خواہش پورے کرنے پر خاوند میاں حوالہ زنداں کردیئے جائیں گے، کیونکہ وہاں ایسے مقدمات قائم ہوچکے ہیں اور شوہر میاں سزا یاب! جب کہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ عورت کی طبیعت آمادہ ہو یا نہ ہو، خاوند اگر جنسی خواہش کی تسکین چاہتا ہے تو عورت فوراً سرتسلیم خم کردے خواہ وہ تنور ہی پر بیٹھی ہو۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ساری رات فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں کہ اس نے خاوند کی خواہش کا احترام نہیں کیا۔ ٭ اسلام میں یہ بھی ہے کہ معاملہ عدالت میں جانے کے بعد یا مقدمے کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کسی کو معاف کرنے کا حق نہیں ہے۔ اللہ کے رسول کو بھی یہ حق حاصل نہیں تھا۔ لیکن زیر بحث قانون میں یہ حق صدرِ مملکت کے علاوہ صوبائی حکومتوں کوبھی دے دیا گیا ہے کہ وہ فیصلہ ہوجانے کے بعد مجرم کو معاف کرسکتی ہیں ۔ گویا اوّل تو اثباتِ جرم کا طریقہ ایسا نرالا، اتنا مشکل اور ایسا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ کسی کو زانی ثابت ہی نہیں کیا جاسکے گا اور اگر کوئی کسی وجہ سے مجرم ثابت ہوبھی گیا تو سزا پھر بھی یقینی نہیں ، البتہ اس کی بریت اور رہائی یقینی ہے کہ معاف کرنے والے اس کی معافی کا پروانہ جاری کردیں گے۔ علاوہ ازیں اعترافِ جرم پر بھی سزا کا کوئی تصور موجودہ ایکٹ میں نہیں ہے! گویا عبرت ناک سزائیں اور اللہ و رسول کی مقرر کردہ حدیں ہی ختم نہیں کی گئیں بلکہ اس امر کا پورا اطمینان حاصل کرلیا گیا ہے کہ یہ خود ساختہ برائے نام سزائیں بھی کسی کو نہ مل سکیں اور یوں ہم اپنے مغربی آقاؤں کو یہ کہہ سکیں کہ ہم نے بھی آپ کی طرح زنا کو جرم نہیں ، بلکہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کا ’حق‘ سمجھا ہے۔ ہم بھی آپ ہی کی طرح لبرل اور روشن خیال ہیں ، اپنا حق ’وصولنے‘ پر سزا کا ہے کی؟ ’انتہا پسند‘ بے شک شور مچائیں لیکن کون سنتا ہے فغانِ درویش یا آوازِ سگاں کم نہ کند رزق گدارا
Flag Counter