Maktaba Wahhabi

68 - 111
سزا ۲۵ سال قید یا موت ہے۔ یہ تبدیلی قرآن سے بغاوت اور کفر و ارتداد کے مترادف ہے۔ ان تمام حضرات کو جنہوں نے اس کو معرضِ تحریر میں لانے، اس کی بابت فکری مواد مہیا کرنے، اس کی نوک پلک سنوارنے اور اس کو پاس کرانے میں گونگے شیطان بنے، حصہ لیا۔ ان سب کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے اور اگر ایمان کی کوئی رَمق ان کے اندر باقی ہے تو توبہ کرکے اپنے ایمان کی تجدید کرنی چاہئے،کیونکہ قرآن کا فیصلہ ہے : ﴿فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء :۶۵) ’’آپ کے ربّ کی قسم! یہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو حَکَم (ثالث) تسلیم نہ کرلیں ، پھر آپ کے فیصلوں پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور دل و جان سے اس کو تسلیم کرلیں ۔‘‘ نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَمَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَّلَا مُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰه وَرَسُوْلُہُ اَمْرًا اَنْ یَکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰه وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا ﴾ (الاحزاب:۳۶) ’’کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمنہ عورت کے یہ لائق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں ، تو (اس کے بعد ) ان کے معاملے میں ان کا اختیار ہو اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتاہے، یقینا وہ کھلی گمراہی میں جاپڑا۔‘‘ ایک اور ستم ظریفی یہ کی گئی ہے کہ ۱۶ سے کم عمر کی لڑکی اگر بدکاری کا ارتکاب کرے گی تو ہمیشہ کے لئے یہ قطعی اور پیشگی فیصلہ کردیا گیا ہے، گویا کہ اس قانون کے بنانے والے علام الغیوب ہیں کہ یہ زنا بالجبر ہی ہوگا۔ اس لئے سولہ سال سے کم عمر کی بچی سزا سے مستثنیٰ ہوگی،۱ور سزا صرف مرد کو ملے گا (اگر ملی تو) ظاہر بات ہے کہ ایک تو قطعی فیصلہ یکسر غلط ہے؛ ۱۴،۱۵ سال کی بچیاں رضا مندی سے زنا کرسکتی ہیں ، دو ٹوک انداز میں اس کی نفی کردینا ہر لحاظ سے غلط ہے۔ دوسرا، یہ باور کرلیا گیا ہے کہ لڑکی سولہ سال سے پہلے بالغ نہیں ہوتی۔ یہ بھی حقائق و
Flag Counter