Maktaba Wahhabi

67 - 111
کوئی ان سے پوچھے،کون سا قانون یا معاملہ ایسا ہے جس میں پولیس کا رویہ نامعقول نہیں ہوتا؟ پھر تو ہر معاملے میں ہی اور ہر قانون پر عملدرآمد کرانے میں ہی پولیس کا کردار ختم کرنا چاہئے، نہ کہ صرف زنا کے معاملے ہی میں ۔ اسی طرح گھر کی حرمت کا خیال زنا کاروں کے معاملے ہی میں کیوں ؟ کسی بھی معاملے میں پولیس کو گھروں میں چھاپے مارنے کی اور گھروں کی حرمت پامال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسئلہ نہ گھر کی حرمت کا ہے اور نہ پولیس کے ہراساں کرنے کا، اصل بات جو اس قانونِ زیر بحث کے خالقوں کے ذہنوں میں ہے، وہ ہے بدکاری کو فروغ دینا اور اس راہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا۔ مذکورہ تفصیل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جرمِ زنا کو ناقابل دست اندازئ پولیس ہی قرار نہیں دیا گیا بلکہ مقدمے کے اندراج کا طریقہ بھی ایسا انوکھا ایجاد کیاگیا ہے جو ساری دنیا سے نرالا ہے اور ایسا مشکل ہے کہ کوئی زنا کی شکایت درج ہی نہیں کراسکے گا۔ گویا نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی ٭ پھر زنا کی تقسیم زنا بالرضا اور زنا بالجبر کا پس منظر بھی مغربی معاشرہ ہے۔ اسلام میں زنا کی یہ تقسیم نہیں ، ہر دو صورت میں اجنبی مرد و عورت کا آپس میں جنسی تعلق قائم کرنا ’زنا‘ ہے اور دونوں قسم کی سزا بھی ایک ہے۔ البتہ جبر کی صورت میں حد کا نفاذ صرف جبر کرنے والے پر ہوگا، مجبور مرد یا عورت مستثنیٰ ہوگی۔ اسلام میں زنا کی دو قسمیں نہیں ، البتہ زنا کاروں کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک شادی شدہ زانی اوردوسرا غیر شادی شدہ (کنوارا) اور ان دونوں کی سزاؤں میں بھی فرق ہے۔ شادی شدہ زانی مرد و عورت کی سزا سنگساری (رجم) ہے یعنی نہایت عبرت ناک انداز سے پتھر مار مار کر اس کی زندگی ختم کردینا ہے اور کنوارے زانی مرد و عورت کی سزا سو کوڑے ہیں ۔ سب سے بڑا ظلم زنا کی اصل سزا کا خاتمہ ہے جو سو کوڑے یا رجم ہے جیسا کہ ابھی وضاحت کی گئی۔ اسی طرح قذف کی اصل سزا بھی جو ۸۰ کوڑے ہے، ختم کردی گئی ہے اور ان کی جگہ دونوں جرموں کی سزا ۵ سال تک قید اور ۱۰ ہزار روپے تک جرمانہ ہے۔ البتہ زنا بالجبر کی
Flag Counter