Maktaba Wahhabi

66 - 111
کرائیں گے۔ اس کے باوجود جج صاحب کو اگر آپ کے دعوے اور گواہوں کے بیانات پر اطمینان نہیں ہوتا تو وہ آپ پانچوں کے خلاف کسی مزید ثبوت کے بغیر اور آپ کو اپنے دفاع کا کوئی موقع دیے بغیر محض اپنی صوابدید پر حد قذف جاری کرسکیں گے جو شرعاً تو ۸۰ کوڑے ہے مگر نئے قانون میں پانچ سال قید مقرر کی گئی ہے۔ یعنی آپ میں سے ہر ایک کو معاشرے کو برائی سے پاک کرنے کے شوق کی پاداش میں پانچ سال قید کی سزا بھگتنی ہوگی۔ گویا بدکاری اب ریاست کے خلاف کوئی جرم نہیں ہے۔ ریاست اپنے طور پر اسے ختم کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے۔ فحاشی کے اڈّوں کی روک تھام اب پولیس اور انتظامیہ کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ اگر کسی کو اس سے تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ خود گواہ لے کر عدالت جائے اور مجرموں کو سزا دلانے سے کہیں زیادہ یقینی طور پر خود سزا پانے کے لئے تیار ہوکر جائے۔ ظاہر ہے اس کے بعد اگر طوائفوں نے اس بل کی منظوری پر مٹھائیاں بانٹی ہیں تو اُنہیں ایسا کرنا ہی چاہئے تھا۔ یہی صورتِ حال اس شخص کو بھی پیش آئے گی جس کی کسی عزیزہ کے ساتھ جبراً زیادتی کی گئی ہو۔ مجرم کے خلاف اب وہ تھانے میں رپورٹ درج نہیں کراسکتا۔ اس کے بجائے اسے حلفیہ بیان کے لئے چار گواہ تیار کرکے اُنہیں عدالت لے جانا ہوگا اور ان گواہوں کو بھی قذف کی سزا کا خطرہ مول لے کر گواہی دینی ہوگی۔ ریاست اور اس کی مشینری مجرم کے خلاف کسی تفتیش اور جرم کے ثبوت کی تلاش کی ذمہ داری سے مبرا ہوگی۔ پھر اگر کسی پر جرم مکمل طور پر ثابت بھی ہوجائے تو اسے قرآن و سنت میں مقرر کردہ سزا دینے کے بجائے جج اپنی صوابدید کے مطابق کچھ قید اور جرمانے کی سزا دے کر اس کی گلوخلاصی کردے گا۔ اس طرح یہ قانون قرآن و سنت کی منشا کے بالکل برعکس مجرم کے لئے سہولتیں فراہم کرے گا جبکہ اس کی ہوس کا نشانہ بننے والی مظلوم عورت کی ریاست کوئی مدد نہیں کرے گی بلکہ اس کی دادرسی کی راہ میں تقریباً ناقابل عبور مشکلات حائل ہوں گی۔ اسی لئے علماے کرام اس قانون کو انسدادِ بدکاری کے بجائے قرآن وسنت سے صریحاً متصادم ’فروغِ بدکاری کا قانون‘ قرار دے رہے ہیں ۔‘‘ (روزنامہ ’جنگ‘ لاہور: ۱۰ دسمبر ۲۰۰۶ء) اس کے لئے عذر یہ تراشا گیا ہے کہ ایک تو پولیس لوگوں کو ہراساں کرتی ہے۔ دوسرے، گھروں کی حرمت پامال ہوتی ہے۔ سبحان اللہ! اسے کہتے ہیں : عذر ِ گناہ بدتر از گناہ!
Flag Counter