Maktaba Wahhabi

65 - 111
اب اصل قانون پرگفتگو… صرف ایک نکتے پر بحث! زناکے انسداد کو حکومت کی ذمہ داری سے نکال کر اسے انفرادی اور پرائیویٹ معاملہ قرار دے دیاگیاہے۔ جیسے کسی کاکوئی نقصان ہوجائے، اس پرکوئی ظلم و زیادتی کرے، اس کی جائیداد پرناجائز قبضہ کرے تو وہ عدالت میں مقدمہ دائر کرے اوروہاں سے سالہا سال کی مقدمہ بازی کے بعد اور وکیلوں کی بھاری فیسیں اورعدالتی اخراجات کے بعد حصولِ انصاف کی کوشش کرے۔ اسی لئے اس جرم کو پولیس کی مداخلت سے بالکل آزاد کردیا گیاہے، جب کہ کوئی ٹریفک سگنل توڑ دے، یا کسی گھر میں جعلی نوٹ چھاپنے کی پولیس کو اطلاع ملے تو اس قسم کے معمولی جرائم میں پولیس مداخلت کرسکتی ہے، پکڑ دھکڑ کرسکتی ہے، گھروں کے اندر چھاپے مارسکتی ہے لیکن زنا کاری اتنا ہلکا جرم ہے اور زنا کار مرد و عورت اتنے محترم ہیں کہ پولیس اس پر مطلع ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی۔ اس کی تفصیل خوش تر آں باشد کہ سرّ دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں کے مصداق، ایک محترم کالم نگار جناب ثروت جمال اصمعی کے الفاظ میں حسب ِذیل ہے: ’’حقوقِ نسواں بل کی منظوری کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ فرض کیجئے خدانخواستہ آپ کے پڑوس میں بدکاری کاکوئی اڈّہ کُھل جاتا ہے۔ تو اب آپ نہ تو اس کی رپورٹ مقامی تھانے میں کرسکتے ہیں نہ پولیس از خود اس کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتی ہے۔ آپ اس اڈّے کو بند کرانا چاہتے ہیں تو آپ کو سیشن کورٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔ تاہم وہاں بھی محض کوئی رپورٹ درج کرانے سے کام نہیں بنے گا۔ اگر آپ کے سر میں بدی کے خاتمے کا سودا سمایا ہے تو اس کے لئے پہلے چار ایسے افراد تیار کرنے ہوں گے جو تحریری اور حلفیہ گواہی دے سکیں کہ اس اڈّے پر بدکاری ہوتے اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ پھر اُن چاروں کو لے کر آپ کو عدالت جانا ہوگا۔ عدالت کے طریق کار کے سارے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ اس کے بعد یہ چاروں گواہ آپ کی مدعیت میں اپنے حلفیہ تحریری بیان جمع
Flag Counter