Maktaba Wahhabi

63 - 111
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری سوسائٹی میں راتوں کو جو کچھ ہوتا ہے وہ تو کسی قانونی مدد کے بغیر بھی ہورہاہے اور اسے کوئی روک نہیں سکتا، اسے تو انسان کا قدیم ترین پیشہ بھی کہا گیاہے، اس لئے بہتر یہی تھاکہ اسے ایک قانونی جواز عطاکردیا جائے کہ چاردیواری کے اندر جو چاہو کرتے رہو،مگر اس انقلابی قانون کافائدہ تب ہوگا جب پولیس کو بھی اس قانون کا قائل کیا جائے گا، ور نہ وہ اسے بھی دوسرے کئی قوانین کی طرح ناکام اور اپنی مطلب برآری کاذریعہ بنا لے گی۔ ہمارے قانون سازوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے اور اس قانون کی روشنی میں پولیس کا ریفریشر کورس کرانا چاہئے۔‘‘ ٭ اب ایک خاتون کا خط جو ’نوائے وقت‘ کے کالم ’نقشِ خیال‘ میں شائع ہوا، پڑھیے: ’’یوں تو ’مضامینِ تازہ‘ کاایک انبار سالگاہے اور ہرموضوع دامانِ قلم کو اپنی طرف کھینچ رہاہے لیکن آج ای ایم ای سوسائٹی لاہورسے مسز شہناز چودھری کا خط ملاحظہ فرمائیے : ’’محترم عرفان صدیقی ! آداب…’نوائے وقت‘ میں آپ کا کالم ضمیرکوتازہ دم رکھے ہوئے ہے۔ کاش آپ کی آواز صاحب ِاقتدار لوگوں تک بھی پہنچ پائے۔ آج کل تو روزانہ ہی تواتر سے ایسی دل خراش خبریں آرہی ہیں کہ دل سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ ذرا ان خبروں کا تسلسل ملاحظہ ہو : 1. حدود آرڈیننس میں ترمیم کا بل منظور ہوگیا۔ 2. صدر اور وزیراعظم نے اس بل کی منظوری پرقوم کومبارکباد دی۔ 3. ٹونی بلیر کی آمد پر فیصل مسجد میں ’لاؤڈ سپیکر پر عصر‘ کی اذان کی ممانعت کر دی گئی۔ 4. فوج کا ماٹو : ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ بدلا جارہاہے۔ میں تو حیران ہوں کہ مسلمان ہوتے ہوئے ان خبروں پر مجھے ہارٹ اٹیک کیوں نہیں ہوا اورہمارے علماے کرام میں سے بھی کسی کی حرکت ِقلب بند نہیں ہوئی، میں سوچ رہی ہوں کہ اب جو خبریں آنے والی ہیں ، وہ کچھ اس طرح کی ہوں گی : 1. توہینِ رسالت پرموت کی سزاختم کردی گئی۔ (میرے منہ میں خاک!) 2. مرتد کی سزا ختم کردی گئی۔ 3. اسقاطِ حمل کی قانونی اجازت دے دی گئی۔ 4. ہم جنس پرستی جائز قرار دے دی گئی۔ 5. پاکستان میں مقابلہ حُسن کا انعقاد ہورہاہے۔
Flag Counter