جائے کہ وہ بدعنوانی نہ کرسکے۔ عقلمند اہلکاروں نے طے کیا کہ اسے دریا کی لہریں گننے پرلگا دیاجائے، وہاں وہ کیاکرسکے گا۔ چنانچہ اسے دریا کے کنارے بھیج دیا گیا، چند دن بعد وہاں سے بھی اس کی شکایتیں آنے لگیں ۔ معلوم ہواکہ لہروں کی گنتی کے دوران کوئی کشتی اُدھر سے گزرتی تو وہ ملاح کو پکڑ لیتا کہ تم نے میری گنتی خراب کردی ہے اورلہروں کاحساب کتاب گڑ بڑ کردیاہے۔ اس بل کی منظوری پر بازارِحُسن وغیرہ میں بہت خوشی منائی گئی ہے اور خوشی منانے والوں نے ایک بات یہ کہی ہے کہ پولیس ہمارے کوٹھوں پر چھاپے مارتی تھی، اب وہ ایسا نہیں کرسکے گی۔ ان لوگوں کو خوش ہونے کا حق حاصل ہے، لیکن عین ممکن ہے ان کی یہ خوشی عارضی ثابت ہو اور پولیس تھانے میں بیٹھی ان پر ہنس رہی ہو کہ خوش ہولو قانون آنے دو پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ تمہارے تحفظ کاکیاحال ہوتا ہے۔ یوں تو ایک مقابلہ حُسن میں شریک ایک پاکستانی لڑکی سحر محمود نے ایک بیان میں خوبصورت جسم کی نمائش کو ملک و قوم کے لئے بیرونی سرمایہ کاری سے زیادہ مفید اور اس کی نیک نامی اور مشہوری کا بہت بڑا ذریعہ قرار دیاہے؛ کہا کہ اگر جنرل مشرف دو برس مزید رہ گئے تو پاکستان میں بھی ایسا مقابلہ حُسن منعقد ہوگا، لیکن معلوم ہوتا ہے اس پاکستانی لڑکی کا واسطہ کبھی قانون پر عملدرآمد کرنے والے پاکستانی اداروں سے نہیں پڑا جو فحاشی کے جرم میں اسے تھانے میں بند کرکے اس کے حسن کا معائنہ کرتے تو اسے پتہ چلتا کہ نمائش حسن اور مقابلہ حسن کیا ہوتاہے اور اس سے ملک کی ترقی کیسے ہوتی ہے؟ اس بل کو مغربی دنیا میں بہت سراہا جارہا ہے اور امریکہ سے آنے والی خبروں میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان اپنی دقیانوسیت سے نکل کر روشنی کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ ایک بہت ہی حوصلہ افزا امر ہے۔ مغربی دنیاکے پاس زندگی کا کوئی نظریہ تو ہے نہیں صرف ایک سرمایہ داری کا نظام ہے جولوٹ مار پر مبنی ہے، اس کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ اس کا کلچر ہے جسے وہ مغربی تہذیب وتمدن کا نام دیتاہے۔ اسی کلچر کو پھیلانااس کا مشن ہے جسے امریکی دانشور اور سیاستدان ہنری کسنجر نے ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کا نام دیاہے۔ ہم نے اس بات کو اپنے پلے باندھ لیا ہے۔ امریکہ اگر روشن خیالی کے اسی رنگ ڈھنگ سے خوش ہوتا ہے تو ہمارا ایک صوفی تو بہت پہلے کہہ چکا ہے کہ ’’مینوں نچ کے یار مناون دے‘‘ یہ جو تحفظ ِنسواں کابل ہے، اس کا ایک خصوصی فائدہ اس رقص و سرور کا تحفظ ہے۔ مسئلے کا |