Maktaba Wahhabi

61 - 111
ہمت ہوتی ہے کہ وہ انصاف کے لئے فریاد کرے اور اخبارات میں خبر چھپوائے ؟ بہرحال دو چار دن کی بات ہے ایسی خبریں خلافِ قانون قرار پائیں گی۔‘‘ ٭ ایک اور اخباری کالم ملاحظہ ہو: ’’ یہ بل خواتین اور ان کے دوست مردوں کے حق میں ہے یا نہیں ، یہ پولیس کے خلاف ضرور ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس زنانہ و مردانہ تعلق اور رابطے میں پولیس کو دخل اندازی میں مشکل پیش آئے گی اور ایسی خبریں بند ہوجائیں گی جن میں بتایا جاتاہے کہ کل رات فلاں ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس پرچھاپہ مارکر اتنی عورتوں اور اتنے مردوں کو فحاشی اوربدکاری کے الزام میں گرفتار کرلیاگیا، اس کے بعد کیا ہوا اس کی خبر میں نے کبھی شاذو نادر ہی دیکھی ہے، کیونکہ پولیس کی خصوصی دلچسپی گرفتاری کی حدتک ہوتی ہے اوراس کارروائی کے ثمرات سے اس کے بعد اگر یہ کیس عدالت میں جاتا ہے تو پولیس کی بلا سے وہاں عدالت جانے یاوکیل حضرات۔ مشہور ہے کہ لاہور کے ایک وکیل صاحب جنہوں نے اپنا کیمپ آفس تھانہ ٹبی (بازارِحُسن) کے قریب قائم کررکھا تھا، اپنے پاس ضمانت ناموں کے عدلیہ سے دستخط شدہ فارم رکھا کرتے تھے اور بوقت ِضرورت ان میں ملزم کا نام بھر کر تھانے میں پہنچ کر ملزم کو ضمانت پررہاکرا لیتے تھے، خود پولیس بھی مقدمہ درج کرنے سے پہلے پہلے ایسی رہائی کردیاکرتی ہے۔پولیس کو مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب وہ مقدمہ درج کرکے چالان عدالت میں بھجوا دیتی ہے اور اس طرح ملزم اس کے ہاتھ سے نکل کر عدالت کے سپرد ہوجاتاہے۔ یہ بل جسے تحفظ ِنسواں بل کہا گیاہے، میں نے بھی پڑھنے کی کوشش کی ہے، لیکن سواے اس کے کہ اب مرد عورت کے تعلقات میں خاص آسانیاں پیداہوگئی ہیں ، بات زیادہ سمجھ میں نہیں آسکی۔ وہ تو نفاذ کے لئے جب قانون تیار ہوگا تو کسی وکیل صاحب سے اس کے اَسرار و رموز سے باخبر ہونے کی کوشش کی جائے گی۔ ویسے ہم عام لوگوں سے زیادہ پولیس والوں کو فکر ہوگی اور جب یہ قانون اس کے پاس پہنچے گا تو پولیس کے ماہرین اس پر غور کریں گے اور اس نئے قانون کو اپنے لئے مفید اورکارآمد بنانے کے راستے تلاش کریں گے۔ خیال یہی ہے کہ ماہرین پولیس اس قانون کو کارآمد بنانے کے کئی راستے تلاش کرلیں گے، کیونکہ آج تک کوئی قانون ایسا تیار نہیں کیا جاسکا جس سے تھانیدار اور پٹواری کوبے بس کیا جاسکے۔ مشہور ہے کہ ایک سرکاری اہلکار شدید قسم کابدعنوان تھا ، بہت سوچا گیا کہ اس کوکیاڈیوٹی دی
Flag Counter