ہیڈ فون لگائے چست ولائتی جامہ پہنے بھرپور جوگنگ کرتی ہوئی آئی۔ جونہی وہ اس نوجوان کے پاس سے گزری، ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر ہم لوگ دیکھتے ہی رہ گئے۔ ان دونوں کے بازو ایک دوسرے کی کمر میں حمائل ہوگئے اور چند قدم اسی طرح ’مخلوط‘ جوگنگ ہوئی اور پھر شاید شدتِ جذبات کا غلبہ ہواکہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ تمام دوسرے جوگنگ اور واک کرنے والے مرد وزَن دم بخود کچھ خواتین نے منہ پرے کرلئے۔ وہ تو بھلا ہو وہاں موجود سیکورٹی گارڈ کا کہ وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ بھاگتا ہوا آیا اور بآوازِ بلند کہاکہ صاحب یہ کوئی پیرس نہیں ہے، آپ کیا کررہے ہیں اور اُن دونوں نے اسی طرح لپٹے ہوئے حیرانگی اور حقارت سے گارڈ کی طرف دیکھا جس پر اُس نے ہمت کی اور ان کو ایک دوسرے کے ’پنجوں ‘ سے چھڑایا۔‘‘ آپ لکھتے رہئے، اپنی اقدار کے متعلق آپ کہتے رہئے کہ ہم غلام در غلام ہوتے جارہے ہیں اور ان کے جواب بھی سن رہے ہیں کہ کیا مرد عورتیں اکٹھے ہوائی جہاز میں سفر نہیں کرتے، کیا دفتر میں کام نہیں کرتے، کیا اکٹھے شاپنگ نہیں کرتے تو اکٹھے بھاگ لیاتو کیاکیا؟ اور پھریہ بھی تو کہا گیا کہ جنہیں شرم آتی ہے یا جنہیں نہیں دیکھنا تو وہ گھر بیٹھیں یا منہ پرے کرلیں ۔ ہم تو گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اور اگرلبرل ازم اورماڈرن ازم ہمارے پارکوں ، ہماری سڑکوں یعنی ہمارے گھروں میں آجائے تو پھرکیا کریں ؟ گھروں سے نکل کر ویرانوں میں چلے جائیں یاپھر حضرت اکبر الٰہ آبادی کے مطابق : میں نے تو یہ سوچ رکھا ہے کہ اکبر آج سے خانقاہ میں بیٹھ جاؤ ڈَٹ کے قوالی سنو سید محمد بابرشاہ (روزنامہ نوائے وقت، ۹ جنوری۲۰۰۷ء) ٭ ایک اور اخباری تبصرہ ملاحظہ ہو ’’دو غریب لڑکیوں سے جبری زیادتی یعنی Rapeکا ایک کیس سامنے آیا۔ دونوں مظلوم لڑکیاں بیان درج کروانے عدالت پہنچ گئیں اوروہاں زار و قطار روتی رہیں ۔اس واقعے کی خبر اخبارات میں اس لئے چھپ گئی ہے کہ تحفظ ِخواتین آرڈیننس ابھی سینیٹ سے پاس نہیں ہوا ہے۔ یہ قانون پاس ہوکر نافذ ہونے دیں پھر دیکھئے گا کہ ریپ کی شکار کس عورت میں اتنی |