نہیں ملتی اور وہ منیٰ کے آخری حصے کے ساتھ ہی، مگر منیٰ سے باہر خیمہ لگا لیتا ہے تو اس کا حج صحیح ہے کیونکہ عذر کی وجہ سے منیٰ میں نہ رہ سکنے کی،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرانے والوں اور اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پانی پلانے کی وجہ سے رخصت دے دی تھی۔ (فتویٰ شیخ عثیمین،مجلہ الدعوۃ الریاض شمارہ ۱۸۲۸، ۲۴/ذوالقعدہ ۱۴۲۲ھ،۷فروری ۲۰۰۲ء) 104. ۹/ ذوالحج(یومِ عرفہ)کو سورج نکلنے کے بعد میدان ِ عرفات کی طرف روانہ ہوں ۔ (مسلم:۹/۴۰) ممکن ہو تو منیٰ سے پہلے وادیٔ نمرہ میں جائیں اور زوال ِ آفتاب تک وہیں رہیں ۔ (صحیح مسلم:۸/۱۷۰،۱۹۶) اور زوال کے بعد ساتھ ہی اگلی وادیٔ عرنہ میں چلے جائیں ،جہاں آج کل مسجد نمرہ بنائی گئی ہے۔وہاں نمازِ ظہر وعصر کی دودو رکعتیں (قصر) ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ظہر کے وقت میں جمع تقدیم سے پڑھیں اور پھر عرفات چلے جائیں۔(صحیح مسلم:۸/۱۷۰،۱۹۶)اوراگریہ ممکن نہ ہو تو سیدھے عرفات ہی چلے جائیں ۔ 105. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبلِ رحمت کے دامن میں وقوف فرمایا۔اس کے اوپر نہیں چڑھے۔(صحیح مسلم:۸/۱۷۰،۱۹۶) اور فرمایا کہ’’میں نے یہاں وقوف کیا ہے۔البتہ سارامیدانِ عرفات ہی جاے وقوف ہے۔‘‘(صحیح مسلم:۸/۱۹۵)حاجیوں کے لیے یومِ عرفہ کا روزہ جائز نہیں ۔ (بخاری:۱۶۶۱) البتہ ۹/ ذوالحج کا روزہ عام مسلمانوں کے لیے دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔(صحیح مسلم:۸/۵۰،۵۱) میدانِ عرفات میں یہ دن ذکر اور دعائیں کرنے میں گزاریں ۔ دعاؤں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ سینے تک (بیہقی ،مسند احمد،اخبارِ مکہ از فاکہی)اُٹھائے تھے۔ (نسائی:۵/۲۵۱،۲۵۱) 106. ’’کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ یومِ عرفہ سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے رہائی دے۔‘‘(صحیح مسلم:۹/۱۱۷) ’’اس دن اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پرنازل ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے اہلِ عرفات پر فخر کرتا ہے۔اور فرشتوں کو گواہ بنا کرکہتا ہے: میں نے اِن سب کو بخش دیا۔‘‘ (شرح السنہ از بغوی:۱۹۳۱) 107. ایک دعا کو یومِ عرفہ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منتخب فرمایا ہے، جو یہ ہے: ((لَااِلـٰہَ اِلَّا اللّٰه وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ،لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُوَھُوَعَلیٰ کُلِّ شَيئٍ |