Maktaba Wahhabi

49 - 96
1. اس روایت میں عبدالرزاق سے مراد عبدالرزاق بن ہمام صنعانی نہیں بلکہ کوئی دوسرا عبدالرزاق ہے، مثلاً عبدالرزاق بن عمر ثقفی دمشقی وغیرہ ۔ 2. یہ جرح امام یحییٰ بن معین اورامام احمد وغیرہما کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔ خلاصۃ التحقیق امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی یمنی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق یعنی صحیح الحدیث وحسن الحدیث راوی ہیں بشرطیکہ وہ سماع کی تصریح کریں اور روایت اختلاط سے پہلے کی ہو۔ ………………………… حال ہی میں ’اشراق‘ کے شمارۂ مارچ ۲۰۰۷ء میں امام عبد الرزاق پر حبیب الرحمن کاندھلوی کی جرح یوں شائع ہوئی ہے کہ ’’اس کے علاوہ خود عبدالرزاق کی ذات مشکوک ہے۔ محدثین کا بیش تر طبقہ اُنھیں رافضی قرار دیتا ہے۔ بلکہ بعض تو اُنھیں کذاب بھی کہتے ہیں ۔اور جو لوگ انکی روایات قبول کرتے ہیں ، وہ بھی چند شرائط کے ساتھ قبول کرتے ہیں ۔ 1. چونکہ یہ شیعہ ہیں ، لہٰذافضائل ومناقب اور صحابہ کی مذمت میں جو روایا ت ہیں ، وہ قبول نہیں کی جائیں گی ۔ 2. ۲۱۰ھ میں ان کا دماغ جواب دے گیا تھا اور جو شخص بھی چاہتا، وہ ان سے حدیث کے نام سے جو چاہتا کہلوا لیتا ۔لہٰذا ۲۱۰ھ کے بعد سے ان کی تمام روایات ناقابل قبول ہیں ۔ 3. ان سے ان کا بھانجا جو روایات نقل کرتا ہے ، وہ سب منکر ہوتی ہیں ۔ 4. یہ معمر سے روایات غلط بیان کرنے میں مشہور ہے اور اسکی عام روایات معمر سے ہوتی ہیں ۔ 5. ان عیوب سے پاک ہونے کے بعد اس روایت کے راوی تمام ثقہ ہوں اور سند متصل ہو تو پھر وہ روایت قابل قبول ہوگی، ورنہ نہیں ۔یہ تمام شرائط ان حضرات کے نزدیک ہیں جو اس کی روایت قبول کرتے ہیں ۔ ورنہ محدثین کا ایک گروہ تو اس کے رافضی ہونے کے باعث اس کی روایت ہی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ بلکہ زیدبن المبارک تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ واقدی سے زیادہ جھوٹا ہے ۔تفصیل کے لئے کتب ِرجال ملا حظہ کیجئے ۔‘‘
Flag Counter