بہت مشہور ہیں ۔ آپ کے شاگردوں میں احمد بن صالح مصری ، احمد بن حنبل ،اسحق بن راہویہ، زہیر بن حرب ،علی بن مدینی ،محمد بن یحییٰ ذہلی اور یحییٰ بن معین جیسے جلیل القدر ائمہ تھے۔ امام عبد الرزاق کی توثیق جمہور محدثین نے امام عبدالرزاق کو ثقہ وصدوق اور صحیح الحدیث وحسن الحدیث قرار دیا ہے۔ آپ کی بیا ن کردہ احادیث صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن الجارود،صحیح ابن حبان ، صحیح ابی عوانہ اور مستدرک حاکم وغیرہ میں کثرت سے موجود ہیں ۔ درج ذیل محدثینِ کر ام سے امام عبدالرزاق کی تو ثیق ثابت ہے : 1. یحییٰ بن معین قال: ثقۃ لابأس بہ 2. عجلی قال: ثقۃ یکنی أبابکر وکان یتشیع 3. امام بخاری نے عبدالرزاق سے صحیح بخاری میں ۱۰۰ سے زیادہ روایتیں لی ہیں ۔ نوٹ:امام بخاری کا ان کے بارے میں یہ فرمانا:’’ماحدّث من کتابہ فھو أصح‘‘’’اُنھوں نے جو حدیثیں اپنی کتاب سے بیان کی ہیں ، وہ زیادہ صحیح ہیں۔‘‘ یہ کوئی جرح نہیں ہے۔ ایسے ہی امام ترمذی کی طرف منسوب کتاب العلل الکبیرمیں لکھا ہواہے کہ (امام بخاری نے فرمایا:) ’’وعبد الرزاق یھم في بعض ما یحدّث بہ‘‘ ’’اورعبدالرزاق کو بعض حدیثوں میں وہم ہوجاتا ہے ۔‘‘ تو یہ جرح دو وجہ سے مردود ہے : 1. جمہور محدثین کی توثیق کے بعد بعض روایتوں میں وہم ثابت ہو جانے سے راوی ضعیف نہیں ہوجاتا بلکہ وہ ثقہ وصدوق ہی رہتا ہے اور صرف وہم ثابت ہوجانے والی روایت کو ردّ کر دیا جاتا ہے۔ 2. العلل الکبیرکا بنیادی راوی ابو حامد التاجر ہےجومجہول الحال ہے۔العلل الکبیر |