ہمیں دینی مدارس پر فخر ہے۔ دینی مدارس کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مدارس تعلیمی شعبے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔بعض مدارس کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ۲۹/ اپریل :اخباری اطلاعات کے مطابق آنٹی شمیم نے اپنے حالاتِ زندگی اور گاہکوں کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کا اعلان کیااور اس کتاب کے شائع کرنے کی ذمہ داری آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ نے لے لی ۔میڈم شمیم نے کہا کہ بعض ادارے مجھے قتل کروا کے اس کی ذمہ داری لال مسجد کے خطیب و نائب خطیب پر ڈالنا چاہتے ہیں ۔ ایک حکومتی شخصیت نصر اللہ دریشک کے کے گھر پر ایک عشائیے میں بعض اراکین اسمبلی، سپیکر قومی اسمبلی جناب امیر حسین اور وزیر اعظم شوکت عزیز نے آنٹی شمیم کے اس بیان ور اس کے نتائج پر بحث کی۔ ایک رکن صوبائی اسمبلی کے بیان کے مطابق اس کتاب کے شائع ہونے سے بہت سے اراکین اسمبلی کی ازدواجی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں بلکہ بہت سوں کو طلاق کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ ۲/ مئی : امام کعبہ نے وفاقی وزیر اعجاز الحق سے سعودی عرب میں ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان میں خود کش حملے کرنے والے گمراہ ہیں ۔ اسلام سرکاری یا کسی کی ذاتی زمین پر قبضہ کر کے مسجد یا مدرسہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا ۔حکومت کے ہوتے ہوئے کوئی فرد اپنی شرعی عدالت قائم نہیں کر سکتا۔ یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے، اگر وہ پورا نہیں کرتے تو اللہ کو جوابدہ ہوں گے۔جبکہ دوسری طرف لال مسجد کے نائب خطیب نے یہ بیان دیا کہ امام کعبہ کوحقائق کے منافی معلومات فراہم کی گئیں ، چودھری شجاعت معاملہ کو حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ اعجاز الحق اس کو اُلجھا رہے ہیں ۔ یہ اب تک حکومت اور لال مسجد کی انتظامیہ کے مابین ہونے والے تنازع کی ایک مختصر واقعاتی روداد ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ لال مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے کون سے اقدامات درست تھے اور کون سے غلط؟ تو اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر ’محدث‘ کے حالیہ شمارے میں قارئین کے سامنے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب میں شرعی رہنمائی پیش کر دی گئی ہے جس کے مطالعہ کے بعد قارئین کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں ۔ |