Maktaba Wahhabi

94 - 95
استعماری مقصد کے لئے وہ فوجی حکومتوں کو استعمال کررہا ہے کیونکہ فوج اس مقصد کے لئے جمہوری حکومت کی نسبت زیادہ موزوں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مغرب کی تہذیبی یلغار کو روکنے کے لئے ہمیں اپنے اندر سے منافقت اور کرپشن کو ختم کرناہوگا، صدقِ مقال اور اکل ِحلال کو شعاربنانا ہوگا اور مغربی تہذیب کے سامنے بند باندھنے کے لئے مغربی طاقتوں کے آلہ کاروں کے خلاف شدید مزاحمت اس دور کا اہم تقاضا ہے۔ ٭ مولانا خورشیداحمد گنگوہی نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ تہذیبی تصادم دراصل سیاسی محکومیت کا نتیجہ ہے اور اس سیاسی محکومیت کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ادارۂ خلافت کے احیا کے لئے سنجیدہ پیش قدمی کی جائے۔اُنہوں نے کہا کہ دنیا کی تمام اقوام اپنے نظریات کے فروغ کے لئے اپنے مال میں سے مذہبی اداروں کی مالی امداد کا باقاعدہ حصہ نکالتی ہیں مثلاً ہر یہودی اپنے مال میں سے ۱۰ فیصد اسرائیل کے لئے عطیہ کرتا ہے۔ لندن میں عیسائیت کے فروغ کے لئے کام کرنے والے اداروں کی عمارات شاہی محلات سے زیادہ پرشکوہ ہیں ۔ یہ لوگ اپنے مذہب کے فروغ کے لئے عملاً شرکت کرتے ہیں لیکن مسلمانوں میں یہ احساسِ ذمہ داری اور جذبہ انفاق ختم ہوتا جارہا ہے۔ ٭ مولانا ظفر اللہ شفیق صاحب نے کہا کہ اگر خود مسلمان اسلام کے ساتھ مخلص ہوجائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر مسلمان کے حرزِجاں ہو تو مغربی تہذیب کے بلاخیز طوفان کو روکاجاسکتا ہے۔ ’’جوہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ آج مغرب شیطان کی اس وصیت پر گامزن ہے کہ ’’روحِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بدن سے نکال دو۔‘‘ اس کا علاج یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر چیز کی محبت سے فائق ہوجائے۔ ٭ بعدازاں جناب محمد عطاء اللہ صدیقی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یورپ میں سیکولر اور مذہبی طبقات کی باہمی مخاصمت پر کئی صدیاں بیت چکی ہیں ،لیکن اس کے باوجود ان دونوں باہم متحارب حلقوں کااہانت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتفاق حیران کن ہے۔ عیسائی لٹریچر سے جدید سیکولر دانشوروں نے توہین ِرسالت کو اپنی تحریروں میں منتقل کیاہے، جن میں بطورِ مثال فرانس کے مشہور سیاسی مفکر والٹیر،انگریزی کے معروف شاعرشیکسپیئر، دانتے اور
Flag Counter