بسلسلۂ غامدیت محمد رفیق چودھری عربی دانی کا ایک اور نادر نمونہ غُثَائً اَحْوٰی کے معنی؟ دورِ حاضر کے تجدد پسند گروہ (Miderbusts)نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کاجدید ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ ہمارے ہاں اس فتنے کی ابتدا سرسید احمد خان نے کی۔ پھر اُن کی پیروی میں دو فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ان میں سے ایک سلسلہ عبداللہ چکڑالوی اورمولانا اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا جناب غلام احمد پرویز تک پہنچتا ہے۔ دوسرا سلسلہ مولانا حمید الدین فراہی اورمولانا امین احسن اصلاحی سے گزرتا ہوا جناب جاوید احمد غامدی تک پھیلتا ہے۔ گویا یہ دونوں فکری سلسلے ’دبستانِ سرسید‘ کی شاخیں اور برگ و بار ہیں اور ’نیچریت‘ کے نمائندہ ہیں ۔ اگرچہ پرویز صاحب اور غامدی صاحب کا طریق ِواردات الگ الگ ہے، تاہم نتیجے کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں ۔ دونوں تجدد، انکار ِ حدیث، الحاد اور گمراہی کے علم بردار ہیں ۔ دونوں اجماعِ اُمت کے مخالف اور معجزات کے منکر ہیں ۔دونوں لغت ِ عرب کا سہارا لے کر دین اسلام کا تیا پانچا کرنے کے درپے ہیں ۔ دونوں فاسد تاویلوں کے ذریعے اسلامی شریعت میں تحریف و تبدل اور ترمیم و تنسیخ کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ آج کی نشست میں ہم غامدی صاحب اور اُن کے ’امام‘ امین احسن اصلاحی صاحب دونوں کے ایک غلط ترجمے کی نشاندہی کریں گے جو اُنہوں نے قرآن مجید کی سورۂ اعلیٰ کے درج ذیل مقام پر کیا ہے: ﴿وَالَّذِيْ أَخْرَجَ الْمَرْعٰی، فَجَعَلَہُ غُثَآئً أَحْوٰی﴾ (الاعلیٰ:۴،۵) |