Maktaba Wahhabi

54 - 95
اپنی اُلٹی تفسیر ’البیان‘ (جو آخری سورتوں سے پہلی سورتوں کی طرف آتی ہے اور نامکمل ہے) میں غامدی صاحب نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے: ’’اور جس نے سبزہ نکالا، پھر اُسے گھنا سرسبز و شاداب بنا دیا۔‘‘ (البیان: صفحہ ۱۶۵) اس کے علاوہ غامدی صاحب کے ’امام‘ امین احسن اصلاحی بھی اس مقام کا ترجمہ یوں کرتے ہیں : ’’اور جس نے نباتات اُگائیں ، پھر اُن کو گھنی سرسبز و شاداب بنایا۔‘‘ (تدبر قرآن: ۹/۳۱۱) پھر اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’غثاء أحوی کا ترجمہ عام طور پر لوگوں نے کالا کوڑا یا سیاہ خس و خاشاک کیا ہے، لیکن عربی میں لفظ غثاء تو بے شک جھاگ اور خس و خاشاک کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن أحوی ہرگز اس سیاہی کے لئے نہیں آتا جو کسی شے میں اس کی کہنگی، بوسیدگی اور پامالی کے سبب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ یہ اُس سیاہی مائل سرخی یا سبزی کے لئے آتا ہے جو کسی شے پر اُس کی تازگی، شادابی، زرخیزی اور جوشِ نمو کے سبب سے نمایاں ہوتی ہے۔‘‘ ’’لفظ غثاء اگرچہ مکھن کے جھاگ اور سیلاب کے خس و خاشاک کے لئے بھی آتا ہے لیکن اس سبزہ کے لئے بھی اس کا استعمال معروف ہے جو زمین کی زرخیزی کے سبب سے اچھی طرح گھنا اور سیاہی مائل ہوگیا ہو۔‘‘ (تدبر قرآن: جلد۹/صفحہ ۳۱۵) اس طرح سورۂ الاعلیٰ کی مذکورہ آیت ۵ ﴿فَجَعَلَہُ غُثَائً أَحْوٰی﴾کے یہ دونوں ترجمے ’’پھر اُسے گھنا و سبز و شاداب بنا دیا۔‘‘ (غامدی صاحب کا ترجمہ) ہمارے نزدیک بالکل غلط ہیں اور اس ترجمے اور مفہوم پر ہمارے اعتراضات یہ ہیں : 1. یہ ترجمہ و مفہوم عربیت کے خلاف ہے۔ عربی زبان میں غُثاء کا لفظ ’گھنے سبزے‘ کے معنوں میں نہیں آتا۔ 2. یہ ترجمہ خود قرآن مجید کے نظائر کے خلاف ہے۔ 3. یہ ترجمہ احادیث کے شواہد کے بھی خلاف ہے۔ 4. یہ ترجمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال کے بھی خلاف ہے۔
Flag Counter