تحقیق و تنقید مولانا محمد رمضان سلفی٭ تین طلاقوں کا مسئلہ! کتاب وسنت کی روشنی میں طلاق دینا پسندیدہ فعل نہیں ہے۔ اسلام نے انتہائی کٹھن حالات میں طلاق کی اجازت دی ہے جبکہ صلح اور باہمی اتفاق کی کوئی صورت باقی نہ رہ جائے۔ معمولی بات پر طلاق، طلاق کہہ دینا با عزت اور باوقار لوگوں کا شیوہ نہیں ہے۔ میاں ، بیوی میں جدائی اور تفریق ہی وہ جرم ہے جو کہ شیطان کو باقی تمام جرائم سے بڑھ کر پسند ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ابلیس سمندر کے پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور لوگوں میں فساد اور بگاڑ ڈالنے کے لئے اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے اور سب سے بڑے فتنہ باز کو شیطان کا سب سے بڑھ کر قرب حاصل ہوتا ہے اور ان میں ہر ایک آکر اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے کہ میں نے فلاں جرم کروا دیا اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے فلاں گناہ کروایا۔ شیطان کہتا ہے کہ تم نے کچھ بھی نہیں کیا، لیکن جو چیلا کہتا ہے کہ میں نے فلاں آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی اور اُن دونوں کے ازدواجی تعلق کو توڑ دیا، تو اس پر ابلیس اسے اپنے قریب کرتے ہوئے اس سے بغل گیر ہوجاتا ہے اور کہتا ہے : ’’تو نے بہت خوب کام کیا۔‘‘ (صحیح مسلم : ج۲/ ص۳۷۶) اسلام نے کلی طور پر طلاق کے دروازے کو بند بھی نہیں کیا بلکہ انتہائی ناگزیر حالات میں اس کی اجازت دی ہے اور اس کیلئے طریق کار کا تعین بھی صحیح کردیا ہے۔ طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اسے طہر کی حالت میں بغیر مقاربت کئے ایک طلاق دی جائے، اور پوری عدت گزرنے دی جائے۔ عدت پوری ہونے پر عورت ، مرد سے جدا ہوجائے گی۔ اس کے بعد مرد اور عورت رضامند ہوں تو دوبارہ نکاح کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ دوسری طرف شریعت ِمطہرہ نے ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں داغ دینے کی حوصلہ شکنی ٭ رئیس کلیۃالشریعۃ جامعۃ لاہور الاسلامیۃ ونائب شیخ الحدیث جامعہ ہذا |