رپورٹ محمد اسلم صدیق ’پاکستان میں مغرب کی ثقافتی یلغار‘ ’ملت فورم‘ کے ایک مذاکرے کی رپورٹ اور تاثرات اُردو زبان کے لفظ ’تہذیب‘کے بالمقابل عربی میں ’ثقافت‘ اور انگریزی میں "Culture" کے لفظ استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح ’تمدن‘ کے لئے عربی میں حَضَارۃ اور انگریزی میں "Civilization"کا لفظ بولا جاتا ہے۔چونکہ عام بول چال میں ’تہذیب وتمدن‘ کا محاورہ بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس لیے عموماًتہذیب وتمدن کو باہم مترادف سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ علم عمرانیات کی رو سے تہذیب اور تمدن میں واضح فرق ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھئے مثلاً ہمارے ہاں رقص وسرود اور لہو و لعب کے لیے جوغیر ملکی فنکار آتے ہیں انہیں ’ثقافتی طائفے‘ کہتے ہیں لیکن اُنہیں تمدن کے شاہکار کے طور پر ’تمدنی طائفے‘نہیں کہا جا سکتا کیونکہ’تمدن‘ کا تعلق انسانی رہن سہن اور شہری زندگی کی ترقی سے ہوتا ہے جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی بھی شامل ہے جب کہ تہذیب و ثقافت میں ’ترقی‘ کے بجائے معاشرتی رویے ملحوظ ہوتے ہیں خواہ وہ کھیل کود وغیرہ کے ذریعے دکھائے جائیں یا کسی قوم، علاقے کی اجتماعی اخلاقی حالت سے نمایاں ہوں ۔ ایسے ہی تہذیب،اخلاق وکردار کے حوالے سے بری بھی ہوتی ہے اور اچھی بھی۔ اگرچہ اس کے لیے اصل معیارCriteriaتووہ افکار ونظریات ہی ہیں جو تہذیب وثقافت کی تشکیل میں کار فرما ہوتے ہیں جیسے اسلامی تہذیب:حیا،غیرت، صداقت اور شجاعت وغیرہ جذبوں سے تشکیل پاتی ہے اور اس کا طرۂ امتیاز اجتماعی میدانوں میں باہمی مروّت و لحاظ، خاندانی احساسِ ذمہ داری، رشتوں کا پاس بالخصوص عورت ومرد کا امتیاز ہوتا ہے جب کہ مغرب میں حیا، غیرت اور خاندانی تعلق کا احساس مردہ ہو کر مرد و زَن کی صنفی تقسیم بھی مفقود ہو چکی ہے۔ایسے ہی شراب وجوا اُن کی گھٹی میں پڑا ہے اور تفریح کے نام پر رقص وسرود، |