مرد وزن کا اختلاط اور فحاشی کی مادر پدر آزادی کا وہاں دور دورہ ہے۔ اسی لیے مغربی ریاستیں Single Parentکی مصیبت اورOld Homes جیسے اداروں کی مشکلات کا شکار ہیں جب کہ اسلام نہ صرف اولاد کی ذمہ داری دونوں ماں باپ پر اور بوڑھے والدین کی ذمہ داری اولاد پرڈالتا ہے بلکہ اسلامی معاشرہ میں ایک خاندان یا قبیلہ اپنے متعلقہ افراد کی کارگزاری کا یک گونہ پاس دار بھی ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ’قتل خطا‘ کا خون بہا خاندان یا قبیلہ مشترکہ طور پر ادا کرتا ہے جس کی تفصیلات اسلامی تعلیمات کا درخشاں پہلو ہیں ۔ مغرب کے تمدنی ارتقا کے نتیجے میں اگرچہ ان کے ہاں بعض خوبیوں مثلاً قانون کی پاسداری اور سیاسی واقتصادی معاملات کا معیار ان کی مشرقی نو آبادیاں رہنے والی ریاستوں کے بالمقابل کافی بہتر ہے،لیکن اس کی وجہ ان کا تمدنی ارتقا ہے نہ کہ ان کا وضع کردہ نظام کیونکہ ان علاقوں میں سیاسی اور اقتصادی نظام تومغرب سے ہی برآمد شدہ ہے ، ایسے ہی ان کے سرکاری معاملات میں اگر کوئی بہتری ان کے ہاں نظر آتی ہے تواس کی وجہ مغرب کا قانونی اور عدالتی استحکام ہے جو مغرب نے صرف اپنے ہاں محفوظ کر رکھا ہے۔جب کہ مغرب سے در آمد نظام کے حامل ملک پاک وہند اورمصر وغیرہ خوشامد، منافقت اور کرپشن میں بری طرح بدنام ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مغرب کا سرکاری شعبہ (Public Sector) مغربی تہذیب کا اصل مظہر نہیں بلکہ یہ ایک قسم کا تمدنی ارتقا ہے جو ان کے پروردہ ملکوں میں نہیں پایا جاتا۔ یہاں مغربی سیکولرزم کے تصور کی رو سے انسانی زندگی کی ایک تقسیم کا تعارف پیش نظر رہے تو تہذیبی اقدار کے بارے میں کچھ مزید وضاحت ہو جائے گی یعنی مغرب نے کلیسا اور حکومت کی کشمکش کے بعد باہمی مفاہمت کر کے زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا ہے: 1. نجی شعبہ حیات (Private Sector) 2. سرکاری شعبۂ حیات(Public Sector) ہمارے مقابلے میں انسانی حقوق اور ویلفیئر سٹیٹ کے حوالے سے مغرب کی تمام تر برتری Public Sectorکی حد تک ہے جب کہ ان کا Private Sector تہذیبی اقدار سے محروم ہو کر تباہی کے دہانہ پر ہے جس میں بالخصوص مرد وزَن کی مادرپدر آزادی کی بنا پر فحاشی |