Maktaba Wahhabi

88 - 95
اورسرمستی نے فروغ پا کر خاندانی ادارہ توبالکل تباہ کر دیاہے اور اس کی جگہ نشہ اور نائٹ کلبوں نے لے لی ہے۔گویا مذکورہ بالا پستی ان کی Private life کی بے محابا آزادی کا شاخسانہ ہے جس کے اثرات ایک کل ہونے کی بنا پر ان کی Public life میں بھی اسی طرح ہیں جس طرح Public lifeکی بعض خوبیاں جزوی طور پر Private lifeمیں بھی آ جاتی ہیں ، لیکن یہ واضح رہے کہ مغربی تہذیب کے حوالے سے مغرب کے ایجنٹ جو تہذیبی اقدار مشرق میں برآمد کرنے کی کوشش کر ر ہے ہیں ، وہ ان کے پرائیویٹ شعبہ کی مذکورہ بالاپست اقدار ہیں۔ یہی برائیاں ثقافت کے نام پرمسلم معاشروں پر اپنے اثرات اس لیے گہرے کرتی چلی جارہی ہیں کہ عالمگیریت Globizationکے نام پر اُنہیں مغرب کے ایجنٹ عالمی تہذیب باور کرانے میں کوشاں ہیں ۔مزید برآں اسلامی شعائر کی توہین کے نت نئے طریقوں سے مسلمانوں کی ایمانی غیرت کو بھی چیلنج کیا جارہا ہے تا کہ دینی اضمحلال کے باوصف اُمت ِمسلمہ بے حسی اور بے غیرتی کی چادر اوڑھ لے۔ موجودہ حالات کاتقاضا ہے کہ ہم کفر والحاد کے ان ہتھکنڈوں کے بالمقابل فرقہ وارانہ تعصبات اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر سوچیں کہ اس چیلنج کا مقابلہ کیسے ممکن ہے؟ اس مقصد کے لئے ۲۶ فروری ۲۰۰۶ء بروز اتوار چند احباب کی ایک ملاقات میں تبادلہ خیال کے دوران ملت اوراُمت کے جامع تصور پر مبنی پلیٹ فارم قائم کرنے پر غور شروع ہوا جو علماے کرام کے ایک اجتماع منعقدہ ۲۸/مارچ ۲۰۰۶ء پر منتج ہوا جس میں ’ملت فورم‘ کے نام سے ایک ایسا مشترکہ Think Tank تشکیل دینے پر اتفاق ہوا جو مذہبی دھڑوں اور موجودہ سیاسی آلائشوں سے پاک بطورِ ’اُمت‘ درپیش مسائل پر غورو فکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی فکری اور عملی رہنمائی کرسکے۔ ملت فورم کا پہلا اجلاس ۳۰/ اپریل ۲۰۰۶ء کو مجلس التحقیق الاسلامی لاہور میں مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں دانشوروں ، صحافیوں اور مختلف دینی مکاتب فکر سے وابستہ حضرات نے شرکت کی۔ شرکا میں متحدہ علماء کونسل کے صدر مولاناعبدالرؤف ملک،مسجد معمور کے خطیب مولاناخورشیداحمد گنگوہی، نوائے وقت کے معروف کالم نگار جناب
Flag Counter