کی ہے اور اسے انتہائی قبیح فعل قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا: ’’کیا میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہاہے؟‘‘ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،کیا میں اسے قتل نہ کردوں ؟‘‘ (سنن نسائی :۲/۴۶۸) اس شدید ڈانٹ کے باوجود طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ اختلافی بنا دیا گیا ہے، ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یک بارگی تین طلاقیں دے دے تو تینوں ہی واقع ہوجائیں گی۔ یہ گروہ مقلدین حضرات کا ہے، اگرچہ اس گروہ کے وسیع النظر علما اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ دوسرے گروہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہے، اس رائے کے حاملین اہل حدیث اور ظاہریہ ہیں ۔ امام طحاوی، امام رازی، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، علامہ ابن حجر، علامہ عینی، علامہ طحطاوی، امام شوکانی، عبدالحی لکھنوی اور نواب صدیق حسن خان رحمہم اللہ بھی اسی رائے کو اختیار کرتے ہیں ۔ ٭ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ذھب قوم إلی أن الرجل إذا طلق امرأتہ ثلاثا معا فقد وقعت علیہا واحدۃ‘‘ (معانی الآثار:ج۲/ص۳۱) ’’ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ اگر اکٹھی تین طلاقیں دی جائیں تو ایک ہی واقع ہوتی ہے۔ ‘‘ ٭ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ھذا اختیار کثیر من علماء الدین أنہ لو طلقھا اثنین أو ثلثا لا یقع إلا واحدۃ‘‘ (تفسیر کبیر: ج۶ /ص۹۶) یعنی ’’بہت سے علماے دین کاپسندیدہ مسلک یہ ہے کہ جو شخص بیک وقت دو یا تین طلاقیں دے دے تو اس سے صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ ‘‘ ٭ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اگر کوئی شخص طہر میں ایک کلمہ یا تین کلمات کے ساتھ طلاق دے دے تو جمہورعلما کے نزدیک یہ فعل حرام ہے لیکن ان کے واقع ہونے میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ تین واقع ہوں گی اور ایک قول یہ ہے کہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور یہی وہ قول ہے جس پر کتاب و سنت دلالت کرتے ہیں ۔ (مجموع الفتاویٰ: ج۳۳/ ص۹) |