5. یہ ترجمہ اجماعِ امت کے بھی خلاف ہے کیونکہ کسی مفسر نے آج تک غُثائً کے معنی ’گھنے سبزے‘ کے نہیں کئے۔ ہمارے نزدیک اس مقام کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’اور جس نے سبز چارہ نکالا اور پھر اُسے سیاہ کوڑا کرکٹ بنا دیا۔‘‘ اب ہم اپنے موقف کی تائید میں تفصیلی دلائل پیش کریں گے : 1. عربی لغت کے دلائل مشہور عربی لغت لسان العرب میں اہل لغت کی یہ تصریحات موجود ہیں کہ’’غثاء أحوی‘‘ کے معنی سیاہ خشک گھاس یا خس و خاشاک کے ہیں ۔ 1. ’’الفراء في قولہ تعالیٰ:﴿وَالَّذِيْ أَخْرَجَ الْمَرْعٰی ٭ فَجَعَلَہُ غُثَآئً أَحْوٰی﴾ قال: إذا صار النبت یبیسًا فھو غثآئ، والأحوی: الذي قد اسود من القدم والعتق،وقد یکون معناہ أیضًا أخرج المرعی أحوی أي أخضر فجعلہ غثآء بعد خضرتہ فیکون مؤخرا معناہ التقدیم۔والأحوی: الأسود من الخُضرۃ کما قال: ﴿مُدْھَآمَّتَانِ﴾‘‘ (لسان العرب: ج۱۴ /ص۲۰۷) ’’فراء نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کہ﴿وَالَّذِیْ أَخْرَجَ الْمَرْعٰی٭ فَجَعَلَہُ غُثَائً أَحْوٰی﴾کے بارے میں کہا ہے کہ جب نباتات سُوکھ کر خشک ہوجائے تو اسے غثآء کہتے ہیں اور أحوی اس چیز کو کہتے ہیں جو بوسیدگی اور قدامت کی وجہ سے سیاہ ہوجائے۔ اس کے معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ أخرج المرعی کہ اسے سبزاُگایا اور پھر خشک کردیا اور اس طرح دونوں جملوں میں تاخیر و تقدیم ہوگئی ہے اور أحوی کے معنی زیادہ سرسبز و شاداب ہونے کی وجہ سے سیاہ ہونے کے بھی ہیں جیسے (قرآن میں ) مُدْھَآمَّتَانِ ’’دو سرسبز سیاہی مائل باغ‘‘ آیا ہے۔‘‘ 2. ’’وقال الزجاج في قولہ تعالیٰ: ﴿وَالَّذِيْ أَخْرَجَ الْمَرْعٰی ٭ فَجَعَلَہُ غُثَآئً أَحْوٰی﴾ قال: غثآء جفَّفہ حتی صیّرہ ھشیما جافا کالغثآء الذي تراہ فوق السیل، وقیل معناہ أخرج المرعی الأحوی أی أخضر فجعلہ غثآء |