بعد ذلک أي یابسا‘‘ (لسان العرب ازابن منظور: جلد۱۵ /ص۱۱۶) ’’الزجاج نے اللہ کے اس ارشاد﴿وَالَّذِيْ أَخْرَجَ الْمَرْعٰی٭فَجَعَلَہُ غُثَآئً أَحْوٰی﴾ کے بارے میں کہا ہے کہ غثآء بنا دینے سے مراد یہ ہے کہ اس سبزے اور نباتات کو خشک اور چورا بنا دیا جیسے سیلاب کے اوپر خس و خاشاک نظر آتے ہیں ۔‘‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی ہیں أخرج المرعی الأحوی یعنی سبز نباتات کو اُگایا اور پھر اس کے بعد اسے غثآء یعنی خشک کردیا۔ 3. ابن قتیبہ نے ’تفسیر غریب القرآن‘ میں لکھا ہے کہ ’’فجعلہ غثآء أی یبسا‘‘ (پھر اسے غثآء بنا دیا یعنی خشک بنا دیا) أحوی ’’أسود من قدمہ و احتراقہ‘‘ (جو بوسیدگی یا جل کر راکھ ہونے کی وجہ سے سیاہ ہوچکا ہو۔‘‘ (تفسیر غریب القرآن:ص۵۲۴ ، طبع بیروت) 4. مشہور لغوی مفسر علامہ زمخشری نے غُثَـآئً کے بارے میں یہ تحقیق کی ہے: ’’وھو الحمیل السیل مما بلی وأسود من العیدان والورق‘‘ (الکشاف للزمخشری،جلد۳ /ص۳۲، طبع بیروت) ’’﴿غُثَآئً﴾ سے مراد سیلاب کے خشک اور سیاہ خس و خاشاک ہیں جو اصل میں بوسیدہ لکڑیوں کے ٹکڑے اور درختوں اور پودوں کے سُوکھے ہوئے پتے ہوتے ہیں ۔‘‘ 5. امام راغب اصفہانی ’المفردات فی غریب القرآن‘ میں لکھتے ہیں : قولہ عزوجل: فجعلہ غثآء أحوی أي شدید السواد۔(مادہ ’حوا‘کے تحت ) وقیل تقدیرہ: والذي أخرج المرعی أحوی فجعلہ غثآئ،والحوۃ: شدۃ الخضرۃ (ص:۲۷۱) ’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿فَجَعَلَہُ غُثَآئً أَحْوٰی﴾سے مراد گہری سیاہی ہے اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ ترتیب کلام یوں ہے کہ وہ جس نے سبز چارہ نکالا پھر اسے سیاہ کردیا۔ ویسے حوۃ گہرے سبز رنگ کوبھی کہتے ہیں ۔‘‘ پھر مادّہ غثا کے تحت تحریر کیا ہے کہ الغثائ: غثاء السیل والقدر،ویضرب بہ المثل فیما یضیع ویذھب غیر |