Maktaba Wahhabi

57 - 95
معتد بہ (ص۶۰۲، طبع دارالقلم ، دمشق۱۴۱۶ھ) ’’غثائ‘‘ سے مراد سیلاب کا خس و خاشاک ہے۔ یہ مثال اُس چیز کے بارے میں دی جاتی ہے جو ضائع ہوکر ختم ہوجائے۔‘‘ 2. عربی تفاسیر کے حوالے سے 1. تفسیر طبری میں علامہ ابن جریر طبری نے فَجَعَلَہُ غُثَآئً أَحْوٰی کے تحت لکھا ہے کہ (فجعلہ غثائ) فجعل المرعی غثائ، وھو ما جف من النبت ویبس، فطارت بہ الریح (الأحوی) متغیرا إلی الحوۃ،وھو السواد بعد البیاض، أو الخضرۃ (تفسیر طبری، سورۃ الاعلیٰ) ’’پھر چارے کو غثاء بنا دیا اور غثاء کہتے ہیں اُس نباتات کو جو خشک ہوجائے اور جسے ہوا اُڑائے پھرتی ہو۔ الأحوی بنا دیا یعنی حوۃ میں تبدیل کردیا اور حوۃ کہتے ہیں اُس سیاہی کو جو سفیدی یا سبزی کے بعد ہوجائے۔‘‘ 2. تفسیر الکشاف: میں غثاء کا مفہوم بیان کرتے ہوئے امام زمخشری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ’’أحوی صفۃ لغثائ: أي (أخرج المرعی) أنبتہ (فجعلہ) بعد خضرتہ ورفیفہ (غثاء أحوی) درینا أسود، ویجوز أن یکون حالا من المرعی، أي أخرجہ أحوی أسود من شدۃ الخضرۃ والري فجعلہ غثاء بعد حوتہ‘‘ ( الکشاف :جلد۴/ ص۲۴۳، طبع مصر) ’’أحوی یہاں غثاء کی صفت کے طور پر آیا ہے۔ گویا أخرج المرعی سے مراد ہے کہ نباتات اُگائی اور فجعلہ غثاء أحوی یعنی اس کو تروتازہ سبزہ بنانے کے بعد سیاہ خشک کردیا۔ اور یہ معنی بھی جائز ہیں کہ أحوی حال ہو المرعی کا۔ اس صورت میں مفہوم یہ ہے کہ سبزہ اُگایا جو تروتازگی اور شادابی کی وجہ سے سیاہی مائل تھا اور اس کے بعد اسے خشک سیاہ بنا دیا۔‘‘ 3. مشہور مفسر قرطبی نے غثآء کی لغوی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ الغثائ: الشيء الیابس یعنی ’’غثآئ سے خشک چیز مراد ہے۔‘‘ پھر اس کی مزید تشریح کی ہے کہ
Flag Counter