’’الغثاء ما یقذف بہ السیل علی جوانب الوادي من الحشیش والنبات والقماش و یقال للبقل والحشیش إذا تحطم ویـبس: غثاء وھشیم‘‘ ’’غثائ سے مراد وہ گھاس پھوس اور کوڑا کرکٹ ہے جسے سیلاب وادیوں کے کناروں پر پھینک دیتا ہے۔ جب سبزہ اور گھاس ریزہ ریزہ اور خشک ہوجائیں تو اُسے غثآء یا ہشیم کہا جاتاہے۔‘‘ پھر اسی تفسیر میں غثآء أحوی کے بارے میں مشہور ماہرین لغت ابوعبیدہ رحمۃ اللہ علیہ اور عبدالرحمن بن زید رحمۃ اللہ علیہ کے یہ اقوال بھی ہیں : ’’وقال أبو عبیدۃ : فجعلہ أسود من احتراقہ وقدمہ ،والرطب إذا یبس أسود، وقال عبد الرحمن بن زید: أخرج المرعی أخضر، ثم لما یـبس أسود من احتراقہ، فصار غثاء تذھب بہ الریاح والسیول‘‘ ’’ابوعبیدہ نے اس غثاء أحوی کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اسے بوسیدہ ہونے یا جل کر راکھ ہونے کی وجہ سے سیاہ کوڑا کردیا، اور سبزہ جب خشک ہوجائے تو سیاہ ہوجاتا ہے۔ اور عبدالرحمن بن زید کا قول ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سبز نباتات اُگائی۔ پھر جب وہ خشک ہوئی اور سیاہ راکھ بن گئی تو وہ غثآء ہے، جسے ہوائیں اُڑاتی ہیں اور سیلاب بہا لے جاتے ہیں ۔‘‘ (ملاحظہ ہو، تفسیر قرطبی: جلد۱۰/ص۱۷،۱۸ طبع بیروت) 4. تفسیر البحر المحیط میں ابن حیان اندلسی رحمۃ اللہ علیہ نے غثآء أحوی کے ضمن میں لکھا ہے: ’’قال ابن عباس المعنی فجعلہ غثاء أحوی: أي أسود لأن الغثاء إذا قدم وأصابتہ الأمطار أسود وتعفن فصار أحوی‘‘ (البحر المحیط: جلد۸/ ص۴۵۸) ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ غثآء أحوی کے معنی ہیں کہ غثاء یعنی خشک نباتات سیاہ ہوگئی۔ کیونکہ خشک نباتات جب بوسیدہ ہوجاتی ہے تو بارش وغیرہ کے اثر سے گل سڑ کر سیاہ ہوجاتی ہے اور أحوی ہونے کے یہی معنی ہیں ۔‘‘ 5. امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر فتح القدیر میں فجعلہ غثاء أحوی کے تحت لکھتے ہیں : ’’أي: فجعلہ بعد أن کان أخضر غثائ،أي: ھشیما جافا کالغثاء یکون فوق السیل۔(أحوی) أي: أسود بعد اخضرارہ،وذلک أن الکلأ إذا یبس |