أسود۔ قال قتادۃ : الغثاء الشيء الیابس۔ ‘‘(فتح القدیر: ص۱۸۸۹) ’’مطلب یہ ہے کہ اس سبزے کو غثاء بنا دیا اور غثاء اُس خس و خاشاک کو کہتے ہیں جو سیلاب کے اُوپر آجاتا ہے اور أحوی بنا دیا یعنی جو پہلے سبز تھا، اُسے سیاہ بنا دیا کیونکہ گھاس پھونس جب خشک ہوجائے تو سیاہ ہوجاتی ہے۔ (مشہور تابعی) قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ غثاء خشک چیز کو کہتے ہیں ۔‘‘ 6. تفسیر قاسمی (محاسن التأویل) میں محمد جمال الدین قاسمی نے لکھا ہے کہ ’’المرعی: أي أخرج من الأرض مرعی الأنعام من صنوف النبات ’’فجعلہ‘‘ أي بعد خضرتہ ونضرتہ ’’غثآئ‘‘ أي جافا یابسا تطیر بہ الریح۔ ’’أحوی‘‘ أی أسود،صفۃ مؤکدۃ (لغثائ) لأن النبات إذا یبس تغیر إلی (الحوۃ) وھي السواد‘‘ (تفسیر قاسمی: جلد۱۰/ ص۱۲۶، طبع بیروت) ’’المرعی کے معنی ہیں کہ زمین سے مختلف قسم کی نباتات اُگائیں جو مویشیوں کے لئے گھاس چارہ ہے۔ فجعلہ غثآء یعنی اس نباتات کو سرسبزی و شادابی کے بعد اُسے ایسا خشک کردیا جسے ہوا اُڑائے پھرتی ہے۔ اور أحوی کے معنی ’سیاہ‘ کے ہیں اور یہ غثآء کی صفت کے طور پر آیا ہے کیونکہ جب سبزہ خشک ہوجاتا ہے تو اس کا رنگ سیاہ ہوجاتا ہے۔‘‘ 7. تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے غثآء أحوی کی یہ تفسیر بھی منقول ہے کہ ’’فجعلہ غثآء أحوی‘‘ قال ابن عباس ھشیما متغیرا (بحوالہ تفسیر ابن کثیر:۴/۵۰۰) ’’یعنی اس سے مراد ہے سیاہ رنگ میں تبدیل شدہ کوڑا، چُورا۔‘‘ لُغت و تفسیر کی ان تصریحات سے درج ذیل اُمور بالکل واضح ہیں : 1. لفظ غثآء کے لغوی معنی یہ ہیں : ’’خس و خاشاک ، سُوکھی ہوئی گھاس پھونس، خشک نباتات، خشک چورا اور کوڑا کرکٹ وغیرہ۔‘‘ 2. لفظ أحوی کے لغوی معنی دو ہیں : (i) ایسی نباتات جو بوسیدہ اور پُرانی ہونے کی وجہ سے سیاہ ہوچکی ہو۔ (ii) ایسی نباتات جو تازگی و شادابی اور زرخیزی کی وجہ سے سیاہ مائل سبز ہوگئی ہو۔ 3. پھر جن لوگوں نے لفظ أحوی کو غثآء کی صفت مانا ہے، اُنہوں نے اس کے پہلے |