معنی مرادلئے ہیں ۔ یعنی کہنگی اور بوسیدگی کی وجہ سے سیاہ ہونے کامفہوم اور ان کے نزدیک دونوں آیات کا مطلب یہ ہے کہ ’’وہ جس نے نباتات اُگائی اور پھر اسے سیاہ خس و خاشاک بنا دیا۔‘‘ 4. جن لوگوں نے احوی کو المرعی کی صفت ِمؤخر قرار دیا ہے، اُنہوں نے أحوی کو مذکورہ دوسرے معنوں میں لیا ہے اور ان کی رائے میں دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے: ’’وہ جس نے سیاہی مائل سبز نباتات اُگائی اور پھر اسے خس و خاشاک بنا دیا۔‘‘ گویا أحوی کے دو مختلف لُغوی معنوں کے باوصف جس مفہوم پر علماے لُغت اور مفسرین کرام رحمۃ اللہ علیہ کا کامل اتفاق اور اجماع ہے، وہ یہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ و عجیبہ ہے کہ اس نے پہلے سبزہ پیدا کیا اور ہر طرح کی نباتات اُگائی اور پھر کچھ عرصے کے بعد اُسے خس و خاشاک اور خشک و سیاہ چورے میں تبدیل کردیا۔‘‘ سورۂ اعلیٰ کی ان دونوں آیات کی یہی تفسیر قرآنِ مجید کے دوسرے نصوص اور نظائر سے مطابقت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کی درج ذیل آیات ملاحظہ ہوں : 3. قرآن مجید کے نظائر 1. سورۂ زمر میں اِرشاد ہوا : ﴿ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴾ (الزمر:۲۱) ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی آسمان سے پانی اُتارتا ہے۔ پھر اسے چشمے بنا کر زمین میں چلا دیتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے مختلف رنگوں کی کھیتی اُگاتا ہے، پھر وہ خوب بڑھتی ہے۔ پھر تو اُسے زرد شدہ دیکھتا ہے، پھر وہ اسے ریزہ ریزہ کردیتا ہے۔ بے شک اس میں عقل مندوں کے لئے بڑی نصیحت ہے۔‘‘ 2. سورۂ حدید میں فرمایا گیا ہے : ﴿ اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ |