فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا﴾ (الحدید:۲۰) ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زیبائش اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور ایک دوسرے سے زیادہ مال اور اولاد چاہنا ہے، جیسے بارش کی حالت کہ اس کی روئیدگی سے کسان خوش ہوجائیں پھر وہ اُبھرے اور تم اُسے زرد دیکھو، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے۔‘‘ 3. سورۂ کہف میں بیان ہوا : ﴿ وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا ﴾ (الکہف :۴۵) ’’اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو جیسے پانی کہ جسے ہم نے آسمان سے برسایا پھر زمین کی روئیدگی پانی کے ساتھ مل گئی۔ پھر وہ ریزہ ریزہ ہوگئی جسے ہوائیں اُڑاتی پھرتی ہیں ۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ آخری آیت میں ﴿ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا ﴾ (اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے) سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ سرسبز نباتات اُگانا اور پھر اُسے زرد خشک اور سیاہ خس و خاشاک کردینا اور اُسے چُورا بنا دینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ اور یہی مضمون سورۂ اعلیٰ کی زیر بحث آیات میں بھی دہرایا گیا ہے اور یہ چیز قرآن مجید میں تصریف ِآیات کے اُسلوب کے بالکل مطابق ہے کہ ایک ہی مضمون بار بار کئی طرح بیان ہوتا ہے اور اس سے ایک اور مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے کہ’’القرآن یفسر بعضہ بعضا‘‘ یعنی ’’قرآن کا بعض حصہ اس کے بعض حصے کی تفسیر کرتا ہے۔‘‘ گویا قرآن اپنی تفسیر آپ کردیتا ہے۔ 4. حدیث سے دلیل قیامت کے بارے میں ایک حدیث میں غثاء کا لفظ یوں آیا ہے: ’’کما تنبت الحبۃ في غثاء السیل‘‘ (سنن دارمی: ۱/۶۱، مسند احمد: ۱۲۰۱۳) ’’جیسے سیلاب کے خس و خاشاک میں دانہ اُگتا ہے۔‘‘ |