اس میں لفظ غثاء کی وضاحت ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب النہایۃ میں یوں کی ہے کہ الغُثآء بالضم والمدّ: ما یجئ فوق السیل مما یحملہ من الذبد والوسخ وغیرہ (النہایۃ في غریب الحدیث والأثر:جلد۳/ صفحہ ۳۴۳) ’’مطلب یہ ہے کہ غثاء اُس جھاگ اور کوڑا کرکٹ کو کہتے ہیں جو سیلاب کے پانی کے اُوپر آتا ہے۔‘‘ خلاصہ کلام:یہ ہے کہ سورۂ اعلیٰ کی زیر بحث آیات کا وہی مفہوم صحیح اور معتبر ہے جس کی تائید لغت سے ہوتی ہے اور جس کی موافقت قرآنی نصوص اور نظائر سے بھی موجود ہے اور جو اُمت ِمسلمہ کے تمام جلیل القدر مفسرین کرام کی متفقہ تفسیر کے بالکل مطابق ہے۔ ذوقِ اختلاف، شوقِ اجتہاد!! 5. تضاد بیانی خود تدبر قرآن میں غامدی صاحب کے ’امام‘ امین احسن اصلاحی نے جہاں قرآن میں دوسرے مقام پر’غثائ‘ کا لفظ آیا ہے، اس کا ترجمہ خس و خاشاک ہی کیا ہے : ﴿فَأَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنٰھُمْ غُثَآئً﴾ (المومنون:۴۱) ’’تو اُن کو ایک سخت ڈانٹ نے شُدنی کے ساتھ آدبوچا۔ تو ہم نے اُن کو خس و خاشاک کردیا۔‘‘ (تدبر قرآن: جلد۵/ صفحہ ۳۱۲) اس طرح قرآنی لفظ غثاء کے معنی ’امام صاحب‘ ایک جگہ خس و خاشاک ، اور دوسری جگہ ’گھنی سرسبز، یا ’گھنا سبزہ‘ کے لیتے ہیں ۔ع جناب شیخ کانقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی! 6. اُردو تراجم اب ہم مذکورہ آیت کے سلسلے میں پاک و ہند کے علمائے کرام کے مستند اور متداول تراجم پیش کرتے ہیں : (i)شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ :شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فارسی ترجمے ’فتح الرحمن‘میں مذکورہ آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے: ’’وآنکہ بر آورد گیاہِ تازہ را ۔ باز ساخت آں را خشک شدہ سیاہ گشتہ‘‘ |