معروف ادیب ٹالسٹائی وغیرہ کی تحریریں پیش کی جاسکتی ہیں اور ہم انگریزی لٹریچر کے ذریعے مغربی تہذیب کے یہ زہریلے اثرات اپنی نوجوان نسل کے ذہنوں میں اُنڈیل رہے ہیں ۔ اُنہوں نے پاکستان میں مغربی تہذیب کے گہرے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ۲۲ویں گریڈ کے ایک بیوروکریٹ کے بارے میں بتایاکہ اس نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ دس سال کے لئے شراب سے ہر قسم کی پابندی ختم کردی جائے۔ اس پر جامعہ اشرفیہ کے مولانا شاہد عبید صاحب نے بتایا کہ ایف سی کالج کے انگریزی کے ایک پروفیسر نے یہ دریدہ د ہنی کی ہے کہ ’’پاکستان کے ترقی کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسلام کا نام استعمال کرنے پرعرصہ پانچ برس کے لئے پابندی لگا دی جائے۔‘‘ ٭ آخر میں صدر مذاکرہ حافظ عبدالرحمن مدنی کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے مغربی ثقافت کی یلغار کے سلسلے میں پہلے فکری مغالَطوں کی نشان دہی کی اور زور دیتے ہوئے کہا کہ علمی دنیا میں زندگی کے انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر جوالگ الگ گفتگو کی جاتی ہے، سیکولرزم کی پرائیویٹ اور پبلک لائف کو اس کے مماثل نہ سمجھنا چاہیے کیونکہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی کا بڑاحصہ سیکولرزم کے نزدیک پرائیویٹ سیکٹر ہے جس پر پرسنل لاء لاگو ہوتے ہیں ۔ مثلاً اسلامی عبادات میں ہی نماز، روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ایک اجتماعی حیثیت بھی ہے، پھرجمعہ،عیدین کے علاوہ حج تو ایک عالمگیر اجتماع ہے۔اسی طرح خاندان کی اساس نکاح شادی کے علاوہ ولادت ووفات کی تقریبات بھی اجتماعی ہوتی ہیں ۔ عیدین وغیرہ کی اسلامی تقریبات کے بالمقابل بسنت اور ویلنٹائن ڈے بھی اجتماعی حیثیت رکھتے ہیں ،لہٰذا اصطلاحات کے مغالطہ میں یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ سیکولرزم میں پرائیویٹ سیکٹر انسان کے صرف انفرادی/ذاتی معاملات پر مشتمل ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ سیکولرزم کے مذکورہ بالا تصور کے تحت ہم تہذیبی اُمور میں التباس کاشکار ہو جاتے ہیں اور مغرب کے سرکاری معاملات کی بعض برتریوں کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی تہذیب سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ تہذیب کا تعلق صرف پرائیویٹ زندگی سے ہوتا ہے جو خود مغرب کے ہاں گھناؤنی ہے اور وہ ایسی خرابیوں کو ہی مشرق میں برآمد کرنا چاہتا ہے۔ اس پس منظر میں کہا |