ہیں ، اسی طرح مذہب کو اجتماعی دائرۂ حیات سے نکال کراسے اللہ اور انسان کا نجی مسئلہ قرار دے دیا ہے۔چنانچہ سماج سے مذہب کو لا تعلق کرنے کانتیجہ ہے کہ شراب، جوا ان کے ہاں جائز ہو چکا اور فحاشی و زنا کاری وغیرہ کو قبول کر کے اُنہوں نے خاندانی نظام کو تباہ کر لیا۔ عیسائی مذہب کا من گھڑت فلسفہ ہی ایسا ہے کہ اُسے قبول کر کے اخلاقی اقدار دیوالیہ ہو جاتی ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ الہامی ہونے کا دعوے دار عیسائی مذہب اسے قبول کرچکا ہے اور اخلاقی اقدار کے خلاف ان کے ہاں کوئی خلش بھی نہیں پائی جاتی۔ اُنہوں نے کہاکہ تہذیبی تصادم کے پیچھے نظریاتی تصادم چھپا ہوا ہے اور وہ لوگ مسلم معاشروں میں بڑابھیانک کردار ادا کررہے ہیں جو مغربی نظریات اور ان پر مبنی احکامات کو اسلام سے کشید کرنے اور مصادرِ اسلامیہ سے استدلال فراہم کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔ مسلم معاشرے کے فہیم عناصر کو اُنہیں سمجھنا اور ان کے چہرے سے نقاب کھینچناچاہئے۔یہ لوگ اسلامی تہذیب کے خاتمہ کے لئے اسلامی احکام ونظریات کو ہی بدلنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ مغرب میں مستشرقین کے جو تحقیقی ادارے او رتھنک ٹینک اسلام کے خلاف کام کررہے ہیں ، ان کی سرپرستی مغربی حکومتیں کررہی ہیں ، جبکہ مسلمانوں میں مغرب کی فکری یلغار کے بالمقابل کام کرنے والے لوگ صرف عوامی جذبات پر انحصار کررہے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ مسلمان ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتے ہیں ،لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ صرف ایسی قربانیوں سے انبیا کامشن مکمل نہیں ہو گا۔ ہمیں پرعزم ہوکرمغربی تہذیب کے مقابلہ کے لئے غزوِ فکری کے میدان میں آنا چاہئے او رنہ صرف سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کردارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنے عمل میں سمونا چاہیے بلکہ علمی وفکری مکالمہ کے ذریعے بھی مغربی تہذیب اور اس کے لا دین نظاموں کی خامیوں کو طشت از بام کرنا چاہئے۔ ٭ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مدرّس اورمفتی محمد حسن رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے مولانا شاہد عبید نے کہا کہ آج اسلامی تہذیب کے روایتی مراکز (دینی مدارس) کے ساتھ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا جارہا ہے بلکہ تحفظ ِاسلام کے اس سسٹم کو ختم کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں ۔ہماری روایات سے ہمارا تعلق ختم کر کے کفر ہمیں نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے |