لوگوں کے سپرد کی جو انگریز کے خود کاشتہ تھے اور المیہ ہے کہ بظاہر سیاسی غلامی سے نکل کر بھی اقتصادی غلامی کا چکر اس طرح چلتا رہتا ہے کہ آج بھی ہمارے اکثر وزراے مالیات مغرب سے امپورٹ ہوتے ہیں ۔اسی طرح وزیرتعلیم ان کی مرضی سے متعین ہوتے ہیں اور یوں ذہن سازی کا سارا پروسیس چلتا رہتا ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر ہم نظام تعلیم کے دھارے میں دخل نہیں دے سکتے تو کم از کم دینی مدارس میں یونانی فلسفہ کی بجائے ’مغربی تہذیب کے ناقدانہ جائزہ‘ کو بطورِ مضمون شامل کیوں نہیں کرتے؟ اس طرح پریس سے رابطہ کر کے صحافیوں کے گروپ ڈسکشن پروگرام بنائے جائیں تا کہ پرنٹ میڈیا میں دینی افکار فروغ پائیں اور فحاشی پر قابو پایا جا سکے۔ الیکٹرانک میڈیا اگرچہ عوام پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے تا ہم اسے بھی مغربی تہذیب کے خطرناک اثرات سے بچانے کے لیے اصلاحی اقدامات سوچے جا سکتے ہیں ۔ ہمارے لیے تشویشناک امر یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پرمسلم دانشوروں میں سے ہی مغرب سے مرعوب متجددین کاایک طبقہ اُمت ِمسلمہ میں فکری انتشار کا باعث بن رہا ہے، ان کا ردّ ہونا چاہئے۔ مناسب یہ ہو گا کہ مغرب میں تحریک ِاستشراق(Orientalism) کی طرح ہمارے یہاں بھی استغراب کی تحریک کا ادارہ بنے، جہاں مغرب کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے۔جزوی طور پر اس کی ابتدا تھنک ٹینک کے ذریعے ہو سکتی ہے،لیکن اسے مؤثر اور با وسائل بنانے کے لیے خصوصی مساعی کی ضرورت ہے۔ ٭ اس کے بعد حافظ حسن مدنی جو انہی دنوں امریکہ کا سرکاری دورہ کرکے آئے، نے اپنے خطاب میں کہاکہ اسلام ہی وہ دین ہے جس پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ عمل ہورہا ہے، کیونکہ دیگر بڑے ادیان مثلاً عیسائیت اور بدھ مت کی تمام مذہبی سرگرمیاں صرف چند ایک رسومات تک محدود ہیں ۔ مسلمان اپنی بے عملی کے باوجود بھی اسلام کے جتنے حصے پرعمل پیرا ہیں ، اس کا تناسب دیگر ادیان سے بہت زیادہ ہے، کیونکہ دیگر مذاہب کی تعلیمات ہی محفوظ نہیں نیز اُنہوں نے مغرب کے سیاسی دباؤ کے بالمقابل اپنے مذہبی احکامات میں تحریف کر لی ہے اور جس طرح سیکولرزم کے اُصول کے تحت مذہب اور سیاست کی تقسیم کے قائل ہو گئے |