کوواپس دلوا دیے۔‘‘77 صقلیہ کامشہور مستشرق اماری لکھتا ہے : ’’جزیرہ صقلیہ کے باشندے جو مغلوب ہوکر مسلم حکومت کے زیر سلطنت آگئے تھے، وہ مسلم عرب حکمرانوں کے دور حکومت میں زیادہ آسودہ حال اور پرامن تھے اور ان کی حالت اپنے ان اطالوی بھائیوں سے بدرجہا بہتر تھی جو رومیوں اور فرنگیوں کے ظلم تلے دبے ہوئے تھے۔‘‘78 مشہور مستشرق’ نظمی لوقا ‘لکھتا ہے: ’’میں نے آج تک کوئی ایسی شریعت نہیں دیکھی جو شریعت ِاسلام سے بڑھ کر انصاف کی علمبردار اور سب سے زیادہ ظلم و ستم اور عصبیت کی نفی کرنے والی ہو ۔اس کی یہ دعوت ہے: ﴿وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلَی ألَّا تَعْدِلُوْا﴾(المائدۃ:۸) ’’کسی قوم سے دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو۔‘‘ اب کون وہ انسان ہوگا جس کا اس آیت پر ایمان ہو اور پھر وہ اس رہنما اصول کو چھوڑ کر کوئی دوسرا اُصول اختیار کرے اور کون وہ بندہ ہے جو اس فرمانِ الٰہی کو ماننے کے باوجود کسی ایسے دین سے اپنی عزت نفس کا سامان کرے جو عظمت وجلال میں اس سے فروتر ہو۔‘‘79 77 الدعوۃ إلیٰ الإسلام:۸۷۔۸۸ 78 الإسلام الدین الفطري الأبدي : ۲۹۰ 79 محمد ؛ الرسالۃ والرسول : ۲۶ |