اب اگر ہم ان سے جنگ کا فیصلہ کرلیں تو نہ معلوم کامیابی و فتح کس کا مقدر بنے ؟ اگر ہمیں فتح حاصل نہ ہوئی تو عداوت و دشمنی کی آگ ایک دفعہ پھر بھڑک اُٹھے گی لہٰذا بہتر یہی ہے کہ معاملہ جوں کا توں رہنے دیں چنانچہ وہ راضی ہوگئے اور جنگ نہ کی۔‘‘72 خلیفہ اور مسلمانوں کا یہ انصاف دیکھ کر اہل سمرقند کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلم معاشرہ نے کبھی بھی غیرمسلموں کے حقوق سے تغافل نہیں برتا۔ حتیٰ کہ اگر خلیفۃ المسلمین نے بھی ا س معاملہ میں کوئی کوتاہی کی تو مسلم رعایا نے ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ ٭ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے قبرص کے ذمیوں کو شام کی طرف جلا وطن کردیا تو اس وقت کے علما اس پر سخت برہم ہوئے اور خلیفہ کے اس عمل کو ظلم و زیادتی قرار دیا۔ جب اس کا بیٹا یزید بن ولید منصب ِخلافت پر متمکن ہوا تو علما نے اس سے ذمیوں کو واپس بھیجنے کے متعلق بات کی۔ چنانچہ اس نے ذمیوں کو ان کے علاقہ میں واپس بھیج دیا۔ اسی وجہ سے یزید رحمۃ اللہ علیہ بن ولید اور عمر رحمۃ اللہ علیہ بن عبدالعزیز کو بنی مروان میں سے عادل ترین حکمران سمجھا جاتا تھا۔73 ٭ غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے عدل و انصاف کا ایک ایک واقعہ بے مثال ہے۔ لبنان کے ایک گروہ نے خراج وصول کرنے والے عامل کے خلاف بغاوت کردی جس پر وہاں کے گورنر صالح بن علی بن عبداللہ جو خلیفۃ المسلمین کا قریبی رشتہ دار بھی تھا، نے ذمیوں کی ایک قوم کو جلا وطن کردیا تو امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ کو سرزنش کرتے ہوئے ایک طویل خط لکھا جس کا ایک اقتباس یہ ہے: ’’آپ کو معلوم ہے کہ جبل لبنان کے جلا وطن ذمیوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو بغاوت میں شریک نہیں تھے۔ مخصوص لوگوں کے جرم کی پاداش میں عام لوگوں کو پکڑنا اور اُنہیں ان کے گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کرنا کیونکر درست ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے: ﴿أ لَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَأخْرٰی﴾(النجم:۳۸) ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا‘‘ اگر کوئی حکم سب سے زیادہ لائق اتباع ہوسکتا ہے تو وہ اللہ کا حکم ہے، اگر کوئی 72 تاریخ الطبري :۸/۱۳۸،۱۳۹ 73 فتوح البلدان:ص ۲۱۴ |