Maktaba Wahhabi

76 - 95
نہیں ، ایسی بات نہیں ہے بلکہ مجھے غصہ اس بات پر تھا کہ آپ نے مجھے کنیت کے ساتھ اور میرے مخالف فریق کو بغیر کنیت کے پکار کر ہمارے درمیان عدمِ مساوات کا مظاہرہ کیا اور مجھے خدشہ تھا کہ یہودی یہ نہ سمجھ لے کہ مسلمانوں میں انصاف ختم ہوگیا ہے۔68 چونکہ عربوں کے ہاں کسی کو کنیت کے ساتھ پکارنا باعث ِشرف سمجھا جاتا تھا لہٰذا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کنیت کے ساتھ پکارا تو اُنہیں خدشہ محسوس ہواکہ کہیں یہودی کے دل میں یہ شک نہ گزرے کہ مسلمانوں کے ہاں اب بساطِ عدل لپیٹ دی گئی ہے۔لہٰذا اُنہوں نے چاہا کہ مخالف فریق کے سامنے عدل و انصاف کا تابناک تصور واضح کردیا جائے اور یہ بتادیا جائے کہ وہ اُمور جو دوسروں کے ہاں معمولی سمجھے جاتے ہیں ، اسلام کے نظامِ عدل میں وہ بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( من ابتُلي بالقضاء بین الناس فلیعدل بینھم في لحظہ وإشارتہ ومقعدہ)) 69 ’’جسے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا منصب تفویض ہوا، اسے چاہئے کہ وہ دیکھنے اشارہ وکنایہ اور نشست و برخاست میں بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔‘‘ اور ایک روایت میں نہایت واضح الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إذا ابتلی أحدکم بالقضاء فلیسوّ بینھم في النظر والمجلس والإشارۃ ولایرفع صوتہ علی أحد الخصمین أکثر من الآخر)) 70 ’’اگر تم میں سے کسی پر منصب ِقضا کی آزمائش ڈال دی جائے تو اسے چاہیے کہ وہ دیکھنے، بٹھانے اور اشارہ و کنایہ کے سلسلہ میں فریقین کے درمیان مساوات سے کام لے ،یہاں تک کہ ایک فریق کو دوسرے کی نسبت زیادہ اونچی آواز سے نہ بلائے۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں : (( إذا ابتلي أحدکم بالقضاء فلا یُجلس أحد الخصمین مجلسًا لا یجلسہ صاحبہ وإذا ابتلي أحدکم بقضاء فلیتق اللّٰه في مجلسہ وفي لحظہ وفي إشارتہ)) 71 68 سماحۃ الإسلام : ۶۴ 69 سنن الدارقطني : ۴/۱۳۱ 70 مسند اسحق بن راہویہ: ۱/۸۳ 71 مسند ابی یعلی: ۱۰/۲۶۴، الفردوس بمأثور الخطاب ۱/۳۳۷
Flag Counter