’’جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کی توہین کی یا اس کی طاقت سے زیادہ کام لیا یا اس کی رضا مندی کے خلاف اس کی کوئی چیزلے لی تو میں روزِقیامت اس کا وکیل بن کر اس ظالم کے خلاف جھگڑا کروں گا۔‘‘ ٭ اس طرح کا ایک قصہ عظیم مؤرخ ابن الاثیر67 نے بیان کیا ہے کہ ’’امیر عماد الدین زنگی جزیرۂ ابن عمر میں داخل ہوئے، سردی کا موسم تھا۔ لہٰذا اُنہوں نے قلعہ کے اندر قیام کیا اور لشکر نے خیموں میں پڑاؤ کیا، ان کے سپہ سالاروں میں ایک امیر عزالدین ابوبکر دبیسی بھی تھے جن کا شمار زنگی کے اصحاب الرائے اور اکابر امرا میں ہوتا تھا۔ وہ ایک یہودی کے گھر میں مقیم ہوے اور اسے وہاں سے نکال دیا۔ یہودی نے عمادالدین زنگی سے شکایت کی۔ اس وقت وہ گھوڑے پر سوار تھے، یہودی اور زنگی کا یہ سب سے بڑا سپہ سالار سامنے کھڑے تھے، جب زنگی نے یہ خبر سنی تو غضبناک نگاہوں سے دبیسی کی طرف دیکھا اور فوراً اُنہیں قدموں پر شہر کی طرف واپس پلٹے اور اپنے خیمے اُکھاڑنے اور انہیں شہر سے باہر لگانے کا حکم صادر کیا ،حالانکہ شہر کے باہر کی جگہ گندگی اور شدید کیچڑ کی وجہ سے خیمے لگانے کے قابل نہ تھی۔ یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ یہودی کو انصاف مل سکے۔ مسلمان غیر مسلموں کے حقوق کی پاسداری میں نہایت درجہ کوشاں تھے۔ اُنہوں نے معمولی معمولی چیزوں میں بھی قاضی کے امتیازی رویہ کوبرداشت نہیں کیا ۔ اگر قاضی نے تنازع کے وقت فریقین کو بٹھانے اور ان کو آواز دینے میں کوئی امتیاز برتا تو خود مسلم فریق نے قاضی کو ٹوک دیا ۔ ایسی متعدد مثالیں تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں ۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک یہودی نے خلیفۃ المسلمین عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف شکایت کی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی وہیں موجود تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ابوالحسن! آپ بھی وہاں اپنے مخالف فریق کے ساتھ بیٹھیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اُٹھ کر مخالف فریق کے ساتھ بیٹھ گئے ،لیکن چہرے پرخفگی کے آثار ہویداتھے جو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے محسوس تو کرلئے لیکن اُنہوں نے بظاہر اسے نظرانداز کرتے ہوئے تنازع کا فیصلہ کردیا۔ بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے علی رضی اللہ عنہ ! شایدمخالف فریق کے برابر بیٹھنا آپ پر ناگوار گزرا ہے؟حضرت علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: 67 التاریخ الباہر في الدولۃ الأتابکیۃ : ۷۶ |