قاضی شریح نے کہا:امیرالمومنین آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے؟ کہا: ہاں میرا بیٹا حسن اور غلام قنبر گواہی دیں گے کہ یہ ذرع میری ہے۔ شریح نے کہا: اے امیرالمومنین! بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قابل قبول نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’سبحان اللہ! وہ جنتی آدمی ہے ، اس کی گواہی کیسے قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ ’’ حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ اہل جنت کے سردار ہیں ۔‘‘63 یہودی یہ سب دیکھ کر کہنے لگا: تعجب ہے کہ خود امیرالمومنین میرے ساتھ عدالت میں پیش ہورہے ہیں اور قاضی اس کے خلاف فیصلہ کررہا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ دین یقینا برحق ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اے امیرالمومنین! ذرع یقینا آپ کی ہی ہے ، رات آپ رضی اللہ عنہ سے گر گئی تھی۔64 ٭ امیرالمومنین حضرت عمر رحمۃ اللہ علیہ بن عبدالعزیز نے اپنے دورِ حکومت میں یہ منادی کروا دی : لوگو! سنو، جس پر کوئی ظلم ہوا ہو وہ کیس دائر کروائے۔ علاقہ حمص کا ایک سفید ریش (ذمی) آیا اور کہا: اے امیرالمومنین، میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کی درخواست کرتا ہوں ۔ آپ نے پوچھا: کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا: عباس بن ولید بن عبدالملک نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ عباس بھی وہیں بیٹھے تھے۔ آپ نے پوچھا: ہاں عباس تم کیا کہتے ہو؟ اس نے جواب دیا : یہ زمیں میرے باپ نے مجھے جاگیر دی تھی اور مجھے رجسٹری بھی کردی تھی۔ آپ نے ذمی سے پوچھا: ہاں تم کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: امیرالمومنین! میں تو کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ چاہتا ہوں تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اللہ کی کتاب زیادہ لائق اتباع ہے، ولید بن عبدالملک کی رجسٹری سے۔ اے عباس ! جاؤ اس کی زمین واپس کرو۔اوراس نے وہ زمین یہودی کو واپس لوٹادی۔65 اس فیصلہ کی بنیاد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: (( ألا من ظلم معاہدا أو انتقصہ،أو کلفہ فوق طاقتہ أو أخذ منہ شیئًا بغیر طیب نفس فأنا حجیجہ یوم القیمۃ )) 66 63 سنن الترمذي:۵/۲۵۶ 64 أخبار القضاۃ: ۲/۲۰۲ 65 تاریخ دمشق:۴۵/۳۵۸ 66 سنن أبي داؤد،کتاب الخراج والإمارۃ والفيء: ۳/۴۳۷ |