﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ (المائدۃ:۸) ’’اللہ کی خاطر حق پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔کسی قوم سے دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے منحرف ہو جاؤ۔ عدل کرو، یہ خوفِ خدا سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو،جو کچھ تم کرتے ہو ،اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ اس سے بڑھ کر غیر مسلموں کے تحفظ کی اور مثال کیا ہو سکتی ہے کہ اسلام نے اُنہیں اپنی شرائع کے مطابق اپنے فیصلے کرنے کا اختیار دیااور ساتھ یہ تاکید کر دی کہ اگر وہ اپنا مقدمہ اسلامی عدالت میں پیش کریں تو حصولِ عدل میں مسلم اور غیر مسلم میں مساوات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اور فرمایا: ﴿فَإنْ جَائُ وکَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْھُمْ وَإنْ تُعْرِضْ عَنْھُمْ فَلَنْ یَضُرُّوْکَ شَیْئًا وَإنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ إنَّ اللّٰه یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾ ’’اگر یہ تمہارے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں تو تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو ان کا فیصلہ کرو، ورنہ انکار کر دو۔ انکار کر دو تو یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے اور فیصلہ کرو توپھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ ‘‘ (المائدۃ:۴۲) اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کا مال چوری کرلے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، اسی طرح اگر کوئی ذمی کسی مسلمان کا مال چوری کرلے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور اگر کوئی مسلمان کسی ذمی مرد یا عورت پر ناحق تہمت زنا عائد کرے تو اس پر حد قذف لاگو ہوگی۔59 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( من قذف ذمیا حُدَّ لہ یوم القیمۃ بسیاط من نار))60 ’’جس نے کسی ذمی پر ناحق تہمت لگائی ، روز قیامت اس پر آگ کے کوڑوں کے ساتھ حد قائم کی جائے گی۔‘‘ مسلمانوں نے غیر مسلموں کے ساتھ عدل وانصاف کی جو مثالیں رقم کیں ، وہ آج تک 59 حقوق أہل الذمۃ :ص۱۹،۲۰ 60 المعجم الکبیر للطبراني:۱۶۸۸۶ |