Maktaba Wahhabi

70 - 95
’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف اور واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی ، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔ اور لوہا اُتارا جس میں بڑی طاقت ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں ۔ یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتا ہے ۔یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے ۔‘‘ اور پروردگار کا یہ حکم ہے کہ عدل و انصاف کا دامن کسی حال میں بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے ،خواہ اس کی زد خود اپنے اوپر یا اپنی عزیز از جان ہستی پرہی کیوں نہ پڑ رہی ہو۔ اللہ فرماتے ہیں : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴾ ’’اے ایمان والو! انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ نہ دو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا حق سے پہلو تہی کی تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ،اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ (النساء :۱۳۵) فیصلوں میں عدل و انصاف کو فرض قرار دیتے ہوئے اللہ فرماتے ہیں : ﴿إنَّ اللّٰه یَأمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوْا الأمٰنٰتِ اَھْلِھَا وَإِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ إنَّ اللّٰه نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہِ إنَّ اللّٰه کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا﴾ ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے حوالے کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ وصیت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔ ‘‘ (النساء:۵۸) بلکہ اسلام تو اس حال میں بھی انصاف کا دامن چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا جب ایک طرف دوست احباب اور اہل و عیال کھڑے ہوں اور مدمقابل جانی دشمن ہو: قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
Flag Counter