کیا ہو جو عموماً فاتحین اپنے مفتوحین کے ساتھ روا رکھتے ہیں اورممکن ہے اُنہوں نے مغلوب قوموں کے ساتھ بُرا سلوک کیا ہو اور اُنہیں اپنا مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا ہو جس کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے تھے۔ لیکن اسلام کے بعد عربوں نے اپنے دامن کو ظلم کے چھینٹوں سے کبھی آلودہ نہیں ہونے دیا۔ اوّلین خلفا جو بڑی سیاسی بصیرت اور عبقریت کے حامل تھے، جو عموماً نئے ادیان کے علمبرداروں میں مفقود ہوتی ہے، اُنہوں نے اس بات کا ادراک کرلیا تھا کہ کسی قانون اور مذہب کو جبراً نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ُانہوں نے شام، مصر، ہسپانیہ اور اپنے ماتحت تمام ممالک کے باشندوں کے ساتھ حسن معاملہ ، نرمی اور خوش معاملگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا، ان کے عقائد اور قوانین سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ ان پر کوئی چیز عائد کی بھی تو وہ جزیہ تھا جس کے بدلہ میں ان کے حقوق کا تحفظ کرنا اور انہیں امن وامان مہیا کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری تھی اور یہ جزیہ اس کے مقابلہ میں انتہائی معمولی تھا جو وہ اس سے پہلے اپنے پیش روؤوں کو دیتے آرہے تھے۔حق تو یہ ہے کہ اقوام عالم آج تک ایسے فاتحین سے آشنا نہیں ہوسکیں جو عربوں کی طرح اعلیٰ ظرفی اور رواد اری کے پیکر ہوں اور نہ ہی ایسے دین سے واقف ہوسکیں جو ان کے دین کی طرح اعلیٰ صفات کا جامع ہو۔‘‘58 4. عدل و انصاف کا حق اسلام دین ِعدل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ایسے باریک بین ترازو قائم کر دیئے ہیں کہ عالم ارض پر عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور کائنات ظلم وجور سے بچ سکے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَالسَّمَائَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ ٭ اَلاَّ تَطْغَوْا فِیْ الْمِیْزَانِ وَأَقِیْمُوْا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تُخْسِرُوْا الْمِیْزَانَ﴾ (الرحمن:۷،۸) ’’اس نے آسمان کو بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَأسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰه مَنْ یَنْصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ إنَّ اللّٰه قَوِیٌّ عَزِیْزٌ﴾ (الحدید:۲۵) 58 حضارۃ العرب: ص۶۰۵… مزید دیکھئے: الأقلیات الدینیۃ والحل الإسلامي: ص۵۴ |