Maktaba Wahhabi

68 - 95
جب وہ اپنا مقدمہ اسلامی عدالت میں پیش کریں تو پھر عدل و ا نصاف کے ساتھ ان کا فیصلہ ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَإِنْ جَائُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْھُمْ وَإنْ تُعْرِضْ عَنْھُمْ فَلَنْ یَضُرُّوْکَ شَیْئًا وَإنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ إنَّ اللّٰه یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾ (المائدۃ:۴۲) ’’اگر یہ تمہارے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں تو تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو ان کا فیصلہ کرو ، ورنہ انکار کر دو۔ انکار کر دو تو یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے اوراگر فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ ‘‘ مغربی مؤرخ آدم سمتھ اپنی کتاب ’اسلامی تہذیب؛ چوتھی صدی ہجری میں ‘ کے اندر لکھتا ہے: ’’چونکہ اسلامی شریعت کے احکام صرف مسلمانوں پر لاگو ہوتے تھے، لہٰذا اسلامی حکومت نے دیگر اقوام اور ان کی مخصوص عدالتوں سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا۔ ان عدالتوں کے بارے میں ہم جو کچھ جانتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ یہ عدالتیں کلیسا کے زیر اثر تھیں ، ان کے رئیس پادری ہوتے تھے جو وہاں چیف جسٹس کی حیثیت سے مقرر ہوتے تھے۔ اُنہوں نے قانون کی بے شمار کتب تالیف کیں ۔ ان کے فیصلے شادی بیاہ کے معاملات پر ہی منحصر نہیں ہوتے تھے ،بلکہ اس کے ساتھ وراثت کے مسائل اور عیسائیوں کے مخصوص تنازعات میں بھی حکومت کوئی مداخلت نہیں کرتی تھی۔‘‘ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کو ایسے اُمور کے ارتکاب پر کبھی سزا نہیں دی جو ان کے مذہب میں جائز تھے لیکن اسلام میں ممنوع تھے، مثلاً شراب نوشی اور خنزیر کھانا وغیرہ جیسے مسائل اور یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کا کوئی نظام اور قانون ایسی عظیم رواداری کی مثال پیش نہیں کرسکتا جو اسلام نے اپنے مخالفین کے ساتھ روا رکھی ہے۔57 گسٹاف لیبن(Gustav LeBon) اپنی کتاب ’عرب تہذیب‘میں اسلام کے اس امتیاز کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے : ’’ممکن ہے، اسلام سے قبل عربوں نے فتوحات کے نشے میں سرشار ہوکر ایسے مظالم کا ارتکاب 57 اسلامی تہذیب چوتھی صدی ہجری میں، از آدم سمتھ: ۱/۶۷
Flag Counter