Maktaba Wahhabi

67 - 95
اہل ذمہ سے جزیہ وصول کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔‘‘54 اس کے علاوہ غیر مسلموں کواپنے شخصی معاملات ،مثلاً نکاح، طلاق وغیرہ خود اپنی شریعت کے مطابق حل کرنے کی آزادی ہے، اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔ سزاؤں کے متعلق فقہا نے بیان کیا ہے کہ غیر مسلموں پر صرف ان اُمور میں حدود نافذ ہوں گی جن کو وہ حرام سمجھتے ہیں ،جیسے چوری اور زنا، لیکن جن اُمور کو وہ حرام نہیں سمجھتے مثلاً شراب نوشی اور خنزیر کا گوشت کھاناجیسے معاملات میں ان پر اسلامی سزاؤں کا نفاذ نہیں کیا جائے گا۔55 اہل ذمہ اور مسلمانوں کے شخصی اور معاشرتی معاملات میں چونکہ اختلاف تھا اور وہ اپنے اپنے عقائد کے مطابق عمل کرتے تھے جس کی وجہ سے بعض پیچیدگیاں پیدا ہوئیں تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ بصری کو خط لکھا جس میں ان سے استفسار کیا : ’’ما بال الخلفاء الراشدین ترکوا أھل الذمۃ وما ھم علیہ من نکاح المحارم واقتناء الخمور والخنازیر؟‘‘ ’’خلفاے راشدین نے اہل ذمہ کو کیوں چھوڑ دیا تھا کہ وہ حرام رشتوں سے نکاح کریں ، شراب پئیں اور سور کھائیں ؟‘‘ تو حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: ’’وہ جزیہ اسی لئے ادا کرتے ہیں کہ اُنہیں ان کے عقائد کے متعلق آزاد چھوڑ دیا جائے اور یقینا آپ کو (خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی) اتباع کرنا چاہئے، اپنی طرف سے کوئی نیا حکم ایجاد نہ کریں ۔‘‘56 تاریخ گواہ ہے کہ اہل ذمہ کے لئے الگ عدالتیں قائم تھیں اور ان کو اجازت تھی کہ وہ چاہیں تو ان عدالتوں سے رجوع کریں اور چاہیں تو اسلامی نظامِ قضا کے سایہ میں پناہ لیں اور 54 الدعوۃ إلی الإسلام: ص۷۷ 55 حقوق أہل ا لذمۃ في الدولۃ الاسلامیۃ:ص ۲۰،۲۱ 56 حقوق أہل ا لذمۃ في الدولۃ الاسلامیۃ: ص ۲۲
Flag Counter