Maktaba Wahhabi

49 - 95
مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ توایک ہی طلاق ہوئی ہے۔ تو چاہے تو اس سے رجوع کرلے۔ اس نے کہا: میں نے رجوع کیا۔ (مسند احمد: ج۳ /ص۹۱) اس حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوگی۔ کیا اکٹھی تین طلاقوں کو ایک قرار دینا اجماع کے خلاف ہے؟ رہا یہ دعویٰ کہ تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کا قول اجماع کے خلاف ہے تو یہ دعویٰ بھی خلاف ِحقیقت اور کئی اعتبار سے غلط ہے : اوّلاً… اجماع کی تعریف اُصولِ فقہ کی کتابوں میں یہ کی گئی ہے: ’’ھو اتفاق المجتھدین من الأمۃ الإسلامیۃ في عصر من العصور علی حکم شرعي بعد وفاۃ النبي صل اللہ علیہ وسلم (الوجیز في أصول الفقہ: ص۲۲۲) یعنی ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی دور میں امت ِ مسلمہ کے تمام مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر متفق ہونا ’اجماع‘ کہلاتا ہے۔‘‘ ’اجماع‘کی اس تعریف کے پیش نظر طلاقِ ثلاثہ کے تین واقع ہونے پر اجماع کا دعویٰ ہرگز نہیں کیاجاسکتا، کیونکہ بہت سے اہل علم نے اس سے اختلاف کیا ہے جن کی فہرست اس سے قبل دے دی گئی ہے جبکہ صرف ایک مجتہد کے اختلاف کرنے سے بھی اجماع ثابت نہیں ہوسکتا، تو اتنی کثیر تعداد کے اختلاف کی صورت میں اجماع کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ثانیاً: امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ طلاقِ ثلاثہ سے متعلق چار مذاہب پائے جاتے ہیں : ’’1. یہ کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں ، اس گروہ میں اکثریت مقلدین کی ہے، جبکہ مقلدین میں سے بھی بعض وسیع النظر علما نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ 2. یہ کہ تین طلاقیں دینے سے ایک بھی واقع نہیں ہوتی، ان کے نزدیک اکٹھی تین طلاقیں دے دینا بدعت ہے اور بدعت مردود ہوتی ہے اور یہ قول رافضہ کا ہے۔ 3. یہ کہ تین طلاقیں دینا بدعت ہے لہٰذا اس بدعت کو سنت کی طرف لوٹایا جائے گا اور سنت یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی طلاقِ رجعی دی جائے کیونکہ خاوند ایک وقت میں صر ف ایک ہی طلاق کا مالک ہوتاہے۔ اگر وہ تین طلاقیں یکبار دے گا تو اس سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی، یہ مذہب اہل حدیث اور اہل ظاہر کا ہے اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اورامام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے بلند پایہ
Flag Counter