علما بھی اسی کے قائل ہیں ۔ 4. یہ کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں مدخولہ عورت کے لئے تین اور غیر مدخولہ کے لئے ایک شمار ہوگی۔ اس کے قائل اسحق بن راہویہ وغیرہ ہیں ۔‘‘ (زادالمعاد: ج۴/ ص۵۴) اندازہ فرمائیے زیر بحث مسئلہ میں چار مختلف مذاہب کے پائے جانے کے باوجود اجماع کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ثالثاً : تین طلاقوں کے تین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے ، لیکن اس کے برعکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل برمحل اور برحق ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکور حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو یا تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۵ہجری تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ بھی ایسا نہ تھا جس نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو، تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئے طلاقِ ثلاثہ کو ایک طلاق قراردینے والے اپنے اس موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’فنحن أحق بدعوی الإجماع منکم لأنہ لایعرف في عھد الصدیق أحد ردّ ذلک ولا خالفہ فإن کان إجماع فھومن جانبنا أظھر ممن یدعیہ من نصف خلافۃ عمر وھلمّ جرا فإنہ لم یزل الاختلاف فیھا قائما‘‘ ’’ طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں او ر ہمارے موقف پر اجماع کا پایا جانا زیادہ واضح ہے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ میں اختلاف چلا آرہا ہے۔‘‘ (إغاثۃ اللھفان:۱/۲۸۹) رابعاً … اجماع کا دعویٰ کرنے والوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا حکم دیاہے، تب سے اس پر اتفاق ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس فیصلے کو ترک |