Maktaba Wahhabi

47 - 95
مطلب یہ ہوگا کہ قرآنِ کریم تین طلاقیں اکٹھی دینے کا حکم بیان کررہا ہے کہ جو شخص تینوں طلاقیں اکٹھی داغ دے تو وہ تینوں شمار ہوجائیں گی اور وہ عورت اس مرد پر حرام ہوجائے گی اور اسے تحلیل کی ضرورت ہوگی۔ حالانکہ تین طلاقیں اکٹھی دے ڈالنا احناف کے نزدیک بھی بدعت ہے تو کیا قرآنِ کریم بدعات کو جواز فراہم کرنے کے لئے نازل ہوا ہے؟ اور اگر اس آیت ِکریمہ میں ف کو تعقیب ِبلا مہلت کے لئے مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کریم یکبارگی تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم بیان کررہا ہے اور اس کے برعکس اگر کوئی شخص تین طلاقیں وقفہ وقفہ سے تین مہینوں میں دے تو اس کا حکم قرآنِ کریم میں ذکر نہ ہوا کیونکہ ف کو تعقیب ِبلامہلت کے لئے مان لیا گیا ہے اور اس طرح تین مہینوں میں تین طلاقیں دینے والے کی طلاق بتـۃ نہ سمجھی جائے اور نہ ہی اسے تحلیل کی ضرورت ہو۔ گویا ف کو تعقیبیہ ماننے والوں کے نزدیک طلاق کا جو حَسَن طریقہ ہے، اسے قرآن نے نظر انداز کردیا اور جو طریقہ طلاق بدعت کا ہے، اسے قرآن کریم نے جائز قرار دے دیا۔ (تعالیٰ اللّٰه عن ذلک) یہ بھی یاد رہے کہ تین طلاقیں تین طہروں یا تین مہینوں میں دینے سے بھی ف تعقیب کے لئے ہوسکتی ہے کیونکہ ایک طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد وہ طلاق معدوم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کا اثر اگلے طہر تک جاری رہتا ہے تو دوسرے طہر میں دی جانے والی طلاق بھی پہلی طلاق کے پیچھے ہی واقع ہوگی۔ اسی طرح دوسرے طہر میں دی جانے والی طلاق بھی معدوم نہیں ہوجائے گی بلکہ اس کا اثر تیسرے طہر تک جاری رہے گا اور تیسرے طہر میں دی جانے والی طلاق دوسرے طہر میں دی جانے والی طلاق کے پیچھے ہی واقع ہوگی۔ اس طرح طلاق حَسَن طریقہ کے مطابق دی جائے گی اور ف کی تعقیب بھی باقی رہے گی۔ لہٰذا قرآنِ کریم کے الفاظ سے طلاق کا وہی طریقہ مراد لینا چاہئے جو جائز ہے۔ طلاقِ بدعت کو قرآن کریم کے الفاظ میں لپیٹ کر رائج کرنے سے بہرحال گریز کرنا چاہئے۔ اسی میں انسان کی عاقبت کی عافیت بھی ہے اور اس کے مذہب کی خیربھی۔ کیونکہ مذہب ِحنفی میں بھی یکبارگی تین طلاقیں دینے کو بدعت کہا گیا ہے۔ (الہدایۃ:۲/۳۳۵، المطبع المجتبائي ،دہلی طبع ۱۳۷۵ھ) دلائل احادیث ِمبارکہ 1. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور
Flag Counter