Maktaba Wahhabi

46 - 95
ایک قرار دینے والوں کے مذہب پر شاذ یامنکر کا اطلاق غیر سوچی سمجھی رائے ہے جس کی کوئی وقعت نہیں ۔ رہا یہ کہنا کہ ظاہر قرآن کریم اور صریح و صحیح احادیث بھی تین طلاق کے تین واقع ہونے پر دلالت کرتے ہیں تو یہ دعویٰ بھی حقیقت اور نفس الامر کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآنِ کریم اور صحیح و صریح احادیث بھی تین طلاقوں کو تین قرار دینے کی نفی کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس یکبار دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے پر دلالت کرتے ہیں ،جیسا کہ درج ذیل آیت ِکریمہ اور احادیث ِصحیحہ سے واضح ہے : دلائل قرآنِ کریم قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلطَّلاقُ مَرَّتَانِ َفاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ﴾ (البقرۃ :۲۲۹) ’’یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روک لینا ہے یا عمدگی سے چھوڑ دینا ہے۔‘‘ یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے، وہ دو مرتبہ ہے۔ پہلی مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع ہوسکتا ہے اور دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد بھی رجوع کی گنجائش ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ طلاق دو عدد ہیں کہ ایک آدمی یکبار متعدد طلاقیں دے دے۔ بلکہ مرّتان سے واضح کردیا گیا ہے کہ دو طلاقیں الگ الگ دو بار دی جائیں گی۔ اسی لئے آگے چل کر فرمایا: ﴿فَإِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ﴾ ’’یعنی دو دفعہ طلاق دینے کے بعد تیسری مرتبہ اگر پھر طلاق دے دے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ،یہاں تک کہ وہ کسی اور سے(شرعی) نکاح کرے۔‘‘ اس میں اس بات کی صراحت ہے کہ تینوں طلاقیں قرآن کی رو سے الگ الگ دی جائیں گی۔ فإن طلقھا کی ف سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونا چاہئے کہ اس میں ف تعقیب کے لئے ہے جو فی الفور طلاق دینے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہاں ف صرف ترتیب کے لئے ہے۔ اگر ف کویہاں تعقیب بلامہلت یعنی تیسری طلاق فی الفور دینے کے لئے سمجھ لیاجائے تو اس کا
Flag Counter