Maktaba Wahhabi

45 - 95
تعداد میں کم نہیں ہیں ۔ ان حضرات کی فہرست جن علما کے پیش نظر رہی، اُنہوں نے کبھی ایسا غیرمنصفانہ فیصلہ نہیں کیا جو ’الشریعہ‘ کے مضمون نگار نے کیا ہے، بلکہ جو لوگ تین طلاقوں کو ایک قرار دیتے ہیں ، وہ اگر یہ دعویٰ کریں کہ سو فیصدی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی موقف کے حامل تھے تو یہ بے جا نہ ہوگا جیسا کہ عنقریب اسے ثابت کیا جائے گا۔ رہا دوسرا دعویٰ کہ تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق بنانے والوں کامذہب شاذ اور منکر ہے تو یہ بھی جذباتی فیصلہ ہے جو حقیقت سے عاری ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل سے ثابت شدہ مسئلے کو شاذ یا منکر نہیں کہناچاہئے اور اس سلسلہ میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ مسئلہ زیر بحث میں شاذ یا منکر کا استعمال ہی بے جا اوربے محل ہے، کیونکہ شاذ سے مراد یہ ہے کہ راوی خود تو ثقہ ہو لیکن وہ اپنے سے اَوثق یا اکثر راوۃ کی اس طرح مخالفت کرے کہ ان میں سے ایک کا صدق دوسرے کے کذب کو مستلزم ہو۔ زیر نظر مسئلہ میں شاذ کا اطلاق تب صحیح ہوسکتا ہے جب یہ کہا جائے کہ تین طلاقیں دینے والے کی ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوگی بلکہ اس کا یہ قول رائیگاں جائے گا۔ کیونکہ یہ رائے کلی طور پر دوسری رائے کے خلاف ہے جس میں تین طلاقوں کو تین ہی بنایا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ کہا جائے کہ تین طلاق دینے سے ایک طلاق واقع ہوگی تو یہ ایک مستقل رائے ہے جو کلی طور پر تین طلاقوں کو تین بنانے کے خلاف نہیں ہے، لہٰذا اس پر شاذ کا اطلاق سرے سے درست ہی نہیں ہے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’لیس ہذا ھو الشاذ وإنما الشذوذ أن یخالف الثقات فیما رووہ فیشذّ عنھم بروایتہ فأما إذا روی الثقۃ حدیثا منفردا بہ لم یرو الثقات خلافہ فإن ذلک لا یسمی شاذا‘‘ (إغاثۃ اللھفان: ج۱/ ص۲۹۶) ’’یہ حدیث شاذ نہیں ہوسکتی کیونکہ شذوذ تو اسے کہتے ہیں کہ ثقہ راوی دیگر ثقہ راویوں کے خلاف روایت کرے لیکن جب ثقہ راوی ان سے الگ مستقل حدیث روایت کرے جسے ثقات نے روایت ہی نہ کیا ہو تو اس کا نام شاذ نہیں رکھا جاسکتا۔‘‘ یہی حال منکر کا ہے کیونکہ منکر سے مراد یہ ہے کہ ضعیف راوی ثقہ راویوں کے خلاف روایت کرے اور یہاں مخالفت کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ لہٰذا مضمون نگار کا تین طلاقوں کو
Flag Counter