نہیں دیتا، کوئی ایساکام نہیں سونپتا جو اس کے بس میں نہ ہو۔ کتاب وسنت کی نصوص کی روشنی میں بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے اور عقل بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کام کو کرنے کا حکم دے اور اس کام پر عمل کرنا ممکن نہ ہو، یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس دین ’اسلام‘ کی بنیادوں (کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کی حفاظت فرمائی، اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ اگر اب بھی یہ تعلیم قابل اعتماد نہیں تو پھر دنیا کی کوئی شے قابل اعتماد نہیں ہے۔ اس وحی کے سلسلے میں سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام فرمایا کہ ایک طرف اپنی ذات کا ذکر فرمایا، اس کے بعد جبریل امین کا ذکر فرمایا جسکا نام ہی الروح الأمین ہے۔ اس کے بعد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتاہے جن کے مخالف اور دشمن بھی آپ کو الصادق الأمین کہتے تھے، اور امام الانبیاصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن لوگوں کے ذریعے اس کی حفاظت کروائی، ان کے بارے میں ارشاد ہوا : ﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰه عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾(التوبہ:۱۰۰) ’’اور جن لوگوں نے سبقت کی ( یعنی سب سے پہلے ایمان لائے) انصار و مہاجرین میں سے اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی ؛ اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش اور اللہ نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اس آیت میں گویا اللہ تعالیٰ نے پوری تاریخ انسانی میں کتاب وسنت اور ان پر عمل کی حفاظت کرنے والوں کی پاکیزگی کا تذکرہ کیا ہے اور ان کا تزکیہ کیا ہے۔ حضرات ابوبکر، عمر، عثمان وعلی رضوان اللہ علیہم،تابعین کرام رحمۃ اللہ علیہ اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ سب اس میں شامل ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کرام ایسی عظیم شخصیات تھیں جن میں سے ایک ایک شخصیت اس قابل ہے کہ انسان زندگی گزارنے اور سنوارنے کے لئے ان کی زندگی کو پڑھے تو اس سے اس کی زندگی بھی سنور جائے اور دین کے بارے میں اسے اطمینان بھی حاصل ہوجائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ ان لوگوں |